Maktaba Wahhabi

330 - 406
’’اور اگرمؤمنین کے دوگروہ لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو حتی کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان انصاف کیساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ مومن توبھائی ہی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ ان آیات میں ، ان کے مابین لڑا ئیوں کے باو جود دونوں فریقوں کے لیے ایمان ثابت مانا گیا ہے۔ جب اس آیت کے مقصود میں عام اہل ایمان داخل ہیں ، تو اہل ایمان کے سردار اور بہترین لوگ سب اس آیت کے مطلوب میں داخل ہیں ۔ ۲۔گھروں میں استقرار کے ساتھ رہنے کا حکم مصلحت کے لیے گھر سے نکلنے کے منافی نہیں ہے۔ جیسا کہ حج وعمرہ کے لیے، یاشوہر کے ساتھ سفر پر نکلنا۔ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں نازل ہوئی، اس کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کو ساتھ لے کر سفر پر نکلتے رہے۔ جیسا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات آپ کے ساتھ سفر پر تھیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے سواری پر بٹھا کر روانہ فرمایا، اور وہ تنعیم سے عمرہ کے لیے تیاری کر کے واپس حرم لے گئے۔ حجۃ الوداع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین ماہ سے بھی کم عرصہ قبل کا واقعہ ہے۔ ازواج مطہرات نے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تھا، ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی حج کرتی رہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ہمراہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بھیجا کرتے تھے۔ ان کے یہ اسفار مصلحت کے پیش نظر جائز تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاخیال تھا کہ ان کا یہ سفر مسلمانوں کی مصلحت کے لیے ہے۔ اس لیے وہ اس تاویل کا شکار تھیں ۔ ٭اگرہم تاریخ طبری کو ایک بار سنجیدہ نظر سے دوبارہ دیکھیں ، جس نے سن ۳۶ھ کے واقعات تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں ۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،اورحضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کی بصرہ آمد کی غرض اصلاح کے سوا کچھ نہ تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمرو کو اہل بصرہ کی طرف روانہ کیا تاکہ ان سے بغاوت کا سبب دریافت کریں ۔ حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ جب بصرہ پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں سلام کیا اور دریافت کیا: ماں جی! آپ کس وجہ سے یہاں تک تشریف لائی ہیں ؟
Flag Counter