Maktaba Wahhabi

333 - 406
تو اس کی وضاحت موجود ہوتی۔ صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے گھر سے نکلے تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ کفر کا سر یہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے؛ یعنی مشرق کی طرف ۔‘‘[1] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ مشرق کی طرف منہ کرکے ارشاہ فرما رہے تھے: ’’آگا ہوجاؤ؛ فتنہ یہاں ہوگا،آگا ہوجاؤ؛ فتنہ یہاں ہوگا، آگا ہوجاؤ؛فتنہ یہاں ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔‘‘[2] پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مشرق کی سمت تھی نہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر ۔یہ بات معروف ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر سے مشرق کی طرف واقع تھا اور اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے جن میں اس کی تفسیر آتی ہے، اور آپ نے فرمایا ہے: جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔ بخاری میں سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: ’’اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا....‘‘ الخ یہ معروف ہے کہ نجد عراق مدینہ منورہ سے مشرق کی سمت میں واقع ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’جب سورج طلوع ہو تو نماز ترک کر دو، حتیٰ کہ سورج صاف سامنے آجائے، اور جب سورج کی ٹکیا ڈوب جائے تو انتظار کرو، حتیٰ کہ سورج غروب ہو جائے اور سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔ ‘‘ صحابی رسول حضرت عبداللہ الصنا بجی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کے دو سینگ ہوتے ہیں ۔ جب سورج تھوڑا بلند ہوتا ہے تو وہ سینگ اس سے جدا ہوجاتے ہیں اور جب نصف نہار پر آجاتا ہے تو وہ سینگ دوبارہ اس سے مل جاتے ہیں ۔ پس پھر جب زوال ہوتا ہے تو وہ سینگ اس سے جدا ہوجاتے ہیں اور جب غروب کے قریب ہوتا ہے تو وہ سینگ دوبارہ اس سے مل جاتے ہیں اور غروب ہونے پر جدا ہوجاتے ہیں ۔‘‘ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ یہاں پر نجد سے مراد عراق کی سرزمین ہے، اور اس کے قریب فارس کے علاقے ہیں ، جو فتنہ کی سرزمین
Flag Counter