Maktaba Wahhabi

360 - 406
یہ معاملہ ابو سفیان کی زندگی میں کیوں نہ اٹھایا گیا؟ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس کی جانچ پڑتال کیوں نہ ہوئی؟ خصوصاً جب زیاد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گورنروں میں ایک تھا؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عہد میں اس معاملہ کو اٹھانے کے پیچھے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سیاسی فائدہ تھا کہ زیاد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جاملتا؟ یہ معاملہ ۴۴ھ میں کیوں اٹھایا گیا، جبکہ خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلی گئی تھی؟ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، زیاد کے نسب کا معاملہ عہد جاہلیت کے نکاح سے تعلق رکھتاہے۔ اسلام نے جاہلیت کے نکاحوں کی اولاد کے نسب کو تسلیم کیا ہے، ابن اثیر اس بارے میں کہتا ہے: ’’جب اسلام آیا تواس نے ان تمام بچوں کے نسب کو تسلیم کیا، جو کسی بھی نکاح کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے مابین کوئی فرق نہیں کیا۔‘‘[1] ٭یہ کہنا کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا زیاد کا دعوی کرنے سے خاموش رہنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سب وشتم کے خوف کی وجہ سے تھا۔[2] یہ دعوی کئی وجوہات کی بنا پر مردود ہے: ۱۔ولد زناء کے نسب کے بارہ میں نصوص شریعت موجود ہیں ، ان میں اجتہاد کے لیے کسی کے لیے کوئی راہ نہیں ۔ ۲۔اسلام ماقبل کے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ۳۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے پہلے وفات پاگئے تھے، تو پھر ابو سفیان نے بعد میں اس کا دعوی کیوں نہ کیا؟ ۴۔اس خبر کی سند میں محمد بن سائب کلبی ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتے ہیں : جھوٹا آدمی ہے، رافضی ہے۔ [3] رہ گیا یہ تہمت لگانا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کا نسب اپنے ساتھ ملا لیا تھا، اس بارے میں کوئی صحیح اور یقینی روایت ہمیں نہیں ملی اور اس کے ساتھ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا، ان کی عدالت اور فقہی مقام ومرتبہ اس بات سے مانع ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو رد کر دیں ۔ خصوصاً جب کہ معاویہ بھی اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ہیں : ’’الولد للفراش وللعاہر الحجر۔‘‘[4] جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس تہمت سے برأت واضح ہوگئی تو اب تہمت کارخ زیاد کی طرف ہے،
Flag Counter