Maktaba Wahhabi

61 - 406
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾[البقرہ: ۱۴۳] ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل جماعت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اس دین کے)گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر اس کی گواہی دیں ۔‘‘ اس آیت سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر اس امت کا وصف’’وسط‘‘ بیان کیا گیا ہے؛ جس کا معنی ہے عادل اور بہترین ۔اورچونکہ اس آیت میں براہ راست مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ یہ لفظ عام ہیں مگر اس سے مراد خاص صحابہ کرام کی جماعت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ صرف صحابہ کرام کے حق میں وارد ہوئی ہے کسی دوسرے کے حق میں نہیں ۔ پس جو بھی ہو، آیت کریمہ کسی بھی بعد میں آنے والے امتی سے پہلے صحابہ کرام کی عدالت پر بول بول کر گواہی دے رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ [آل عمران :۱۱۰] ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہو اچھے کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر [1]
Flag Counter