Maktaba Wahhabi

111 - 660
ہیں ہی نہیں اگریہ بات کہی جائے توپھر ان کتب کے مصنفین مثلاً ابوداؤد،ترمذی، نسائی،وغیرہ ہم نے خود ان کتب میں موجود کچھ احادیث پر ضعف کا حکم لگایاہے توپھر اس کا مطلب کیاہے یہ تو اس مثال کی طرح ہواکہ مدعی سست گواہ چست یعنی خود مصنفین توان کتب کی احادیث کی تضعیف کریں اوریہ ان کی وکالت کرنے والے یہ دعویٰ کریں کہ ان کتب میں کوئی بھی حدیث ضعیف نہیں ہے۔ وکیل سچایا اصیل؟باقی ان کتب کے مصنفین کا اپنی کتب میں ضعیف احادیث لانے سے ان پر کوئی قصورنہیں آتاکیونکہ انہوں نے احادیث کی اسانیدذکرکردی ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ باقی کوئی یہ دریافت کرسکتا ہے کہ آخر ان ضعیف احادیث کے ذکر کرنے کا مقصد کیا ہے تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اس طرز عمل کے کئی مقاصد ہیں۔ (١):۔۔۔۔۔۔مثلاً کسی مسئلہ کے متعلق صحیح احادیث بھی واردہوئی ہیں تواسی مسئلہ کی مخالفت میں کچھ ضعیف حدیثیں بھی ہیں تواس صورت میں محدثین کرام دونوں ذکر کرکے ضعیف کےمتعلق وضاحت کردیتے ہیں کہ ضعیف حدیث ہے تاکہ ان ضعیف احایث کے سننے کے بعدکوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس مسئلہ کے متعلق فلاں حدیث(صحیح )واردہے اسی طرح اس کے مقابلہ میں یہ حدیث (ضعیف)بھی واردہوئی ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ کے متعلق ہم جو راستہ بھی اختیارکریں درست ہے دونوں طریقے درست ہیں اورآپ کے اسم مبارک پر جلد حدیثیں مشہور ہوجاتی تھیں۔خصوصاً اسلام کے اول دورمیں اس لیے کتنے ہی واضعین حدیثیں گھڑ گھڑ کربیان کرتےرہتےتھے۔ لیکن اب ان بزرگوں نے ان حدیثوں (ضعیف)کو مقابلہ میں ذکر کرکےان کے حال سے واقف کردیاہے لہٰذا اب کسی کو یہ موقعہ نہیں مل سکتا کہ اس طرح کرسکے کیونکہ ہمارے پاس بھی دلیل موجود ہے ۔لہذا دونوں طریقے درست ہیں کیونکہ اب کہا جاسکتا ہے کہ بھائی آپ کی دلیل چونکہ کمزورہےلہٰذا ہماری دلیل کے مدمقابل نہیں بن سکتی۔اس کی ایک مثال یہ سمجھیں کہ فاتحہ
Flag Counter