Maktaba Wahhabi

314 - 660
کی قبولیت کا زیادہ امکان ہوتا ہےاوردعابغیرہاتھ اٹھائے بھی کی جاسکتی ہےاورہاتھ اٹھاکربھی کی جاسکتی ہے،کیونکہ دعامیں ہاتھوں کے اٹھانے کا ذکربہت سی احادیث قولیہ وفعلیہ میں واردہےاورہاتھ اٹھانادعاکےخاص آداب میں سے ہے۔ (1):۔۔۔۔۔۔سنن الكبريٰ للامام البيهقي:٢/١٣٣میں ایک حدیث ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ((وهذاالدعاءفرفع يديه حذو منكبيه......الخ)) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھوں کے برابراپنے ہاتھ مبارکہ اٹھائے اورفرمایاکہ یہ ہے دعایعنی دعااس طرح مانگنی چاہیے کہ ہاتھوں کوکندھوں کے برابراٹھاناچاہیے۔ معلوم ہوا کہ دعامیں ہاتھ اٹھانا دعاکےآداب میں سے ہے۔اسی طرح صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہےجب میرابندہ دعاکےلیے ہاتھ اٹھاتا ہے تومجھے حیا آتی ہے کہ میں اس کے ہاتھوں کوخالی لوٹاؤں۔ بہرحال ہاتھ اٹھانا دعامیں دعاکےآداب میں سے ہے اوروہ مندوب ومستحب ہے اورچندوقائع بھی احادیث صحیحہ میں مروی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاءمیں ہاتھ اٹھائے اورصحیح مسلم میں صلوٰۃ الخوف کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے مذکورہیں۔(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھائے)جب دعامیں ہاتھ اٹھانے مسنون ومستحب ہیں توفرض نماز کے بعداگرکوئی دعاکرنا چاہے تووہ کیوں ہاتھ نہ اٹھائے، حالانکہ ترمذی والی حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض نماز کے بعد بھی دعاء کی قبولیت کا زیادہ موقع ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے توابن ابی شیبہ کاحوالہ دے کر لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجرکے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ یہ روایت ابن ابی شیبہ کے مصنف میں تودیکھنے میں نہیں آئی ہوسکتا ہے کہ ان کے’’المسند‘‘میں ہولیکن وہ اس وقت ہمارے پاس نہیں۔ بہرحال مذکورہ قولیہ احادیث سےاتنا توثابت ہوگیا کہ نماز فرض کے بعد دعاکے لیےہاٹھ اٹھانے مستحب ہیں لہٰذا انفراداتودعاکےلیے ہاتھ اٹھانا جائز ہواباقی رہا اجتماعی طورپر تو
Flag Counter