Maktaba Wahhabi

386 - 660
پھراگرمرنے والامرنے کے بعدبھی قبرپرآنے والے کو دیکھتا ہے اوراسےپہچانتا ہےاوراس کی آمد محسوس کرتا ہے یا ان کی آوازسنتا ہے توپھر اس کا اس دنیا سے تعلق ختم نہیں ہوااورنہ ہی اس کے اوردنیا کے درمیان کوئی برزخ حائل ہواہے۔ علاوہ ازیں قرآن کریم میں ہے کہ: ﴿وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ﴾ (فاطر:٢٢) ’’یعنی آب اہل قبورکواپنی آوازنہیں سناسکتے۔ ‘‘ ان سب آیات کا یہی مطلب ہے کہ ان کا تعلق دنیا سے ختم ہوچکا ہے ۔ اورحدیث میں آتا ہے کہ جب میت کو قبرمیں داخل کیا جاتا ہے تو اس کی روح لوٹائی جاتی ہے اوروہ لوگوں کی جوتیوں کی آہٹ سنتا ہے اوراس وقت اس میت سے فرشتے(منکرونکیر)سوال وجواب کرتے ہیں اوراس کے بعد مومن کو کہا جاتا ہے کہ نم كنومة العروس یعنی پھر وہ بالکل بے حس ہوکروہاں سوجاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اٹھ کھڑا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اعادہ روح صرف سوال وجواب کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ہمیشہ کےلیےحالانکہ اس مسئلہ کاتقاضاہےکہ’’میت کی روح ہروقت قبرمیں موجودہوتی ہےاس وجہ سے جب بھی کوئی قبرپرآتاہےتواسےپہچان جاتاہے۔‘‘ اوراسے اس کی موجودگی کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ لہٰذا یہ مسئلہ ان واضح دلائل کے برخلاف ہے۔ علاوہ ازیں صحیح حدیث میں واردہواہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص میری قبر پرکھڑاہوکرسلام کہتا ہے تو: ((رداللّٰه علي روحي حتي اردعليه السلام.)) [1] ’’یعنی کہ اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ میری روح کولوٹاتاہےتاکہ میں اسے سلام کا جواب دوں۔ ‘‘ اس صحیح حدیث سے واضح طورپرمعلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک بھی
Flag Counter