Maktaba Wahhabi

391 - 660
اورامام علی بن المدینی اورامام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:’’لايصح في هذاالباب شئي‘‘یہ ہی قول امام ترمذی نے امام بخاری سےنقل کیا ہے۔ اورامام محمدبن یحییٰ ذہلی فرماتے ہیں:"لاعلم من غسل ميتاًفليغتسل حديثا ثابتاولولزمنااستعماله." امام ابن المنذرفرماتے ہیں:"ليس في الباب حديث يثبت." امام الرافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"لم يصح علماءالحديث في هذاالباب شيئامرفوعا." امام ابن دقیق العیدفرماتے ہیں: "احسنها رواية سهيل عن ابيه عن أبيه هريرة وهي معلولة وان صححهاابن حبان وابن حزم." خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی بھی صحیح روایت نہیں ہےاگرکوئی یہ کہتا ہے کہ اس کے طریق جمع کرنے سےحسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے لیکن ہرجگہ ضعیف حدیث کثرت طرق کی و جہ سے حسن لغیرہ تک نہیں پہنچتی جس طرح حدیث ’’من كان له امام فقرأته له قرأة.‘‘اگرہم بھی مان لیں کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے تب بھی یہ حکم وجوبی نہیں ہے صرف استحبابی ہے کیونکہ ایک حسن سند کے ساتھ روایت ہے۔ ((عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنه قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليه وسلم ليس عليكم في ميتكم غسل اذاغسلتموه ان ميتكم يموت لماهرا و ليس بنجس فحسبكم ان يغسلواايديكم.)) (اخرجه البيهقي في كتاب الجنائز،ج٣ص٣٩٨) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے اوپر میت کوغسل دینے سے واجب نہیں ہوتابے شک تمہاری میت پاک حالت میں انتقال کرتی ہے وہ ناپاک نہیں ہوتی(غسل دینے کے بعد)تمہاراصرف ہاتھ دھونا ہی کافی ہے۔ ‘‘
Flag Counter