Maktaba Wahhabi

442 - 660
کےخلاف ہے کیونکہ اس صورت میں’’جعل‘‘کادوسرامفعول ہے ہی نہیں حالانکہ جعل دومفعولوں کو چاہتاہےکما فی کتب النحو.صحیح بات یہ ہے کہ اس جگہ اس کا دوسرامفعول محذوف ہے۔ اس کی تقدیر اس طرح ہے’’كاناجعلاالنكاح كل واحدمنهماالآخرابنته’صداقا.‘‘ (كذافي عون المعبودج١٢ص١٨٧) طبع ملتان یعنی ان دونوں نے ایک دوسرے کے نکاح ہی کومہرٹھہرایاہے، اس معنی کی دلیل مسندابی یعلی کی یہی روایت ہے جومعاویہ رضی اللہ عنہ سےصحیح سندسےمروی ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں:’’جعلاه صداقا.‘‘اب دیکھئے اس میں جعل کامفعول اول’‘ه’‘موجودہےاوریہ بالکل واضح ہےکہ یہ ضمیر انكاح مصدرکی طرف راجع ہے جو انكح میں ہے’’كماقالوا اعدلوا هو(العدل) اقرب للتقوي‘‘بہرحال مقصد یہ تھا کہ انھوں نے ان کے اس تبادلہ ہی کوصداق بنایا، اس لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمان واجب الاذعان کے مطابق ان دونوں میں تفریق کا حکم صادرفرمایانہ کہ اس لیے کہ وہ محض وٹہ سٹہ تھا۔ والاحاديث تفسيربعضه بعضا. لہٰذا مسندابی یعلی کی حدیث ابوداؤد والی حدیث کی تفسیرکررہی ہے اورجعلاکےمفعول اول کی تعیین بھی کرتی ہے۔ مولاناحصاری وغیرہ کوجعل کےمفعول اول سےصرف نظرکرنے کی وجہ سےغلطی لگی ہے باقی کچھ حضرات اس ادلے بدلے کومفاسدکی وجہ سےممنوع قراردیتے ہیں اس کے متعلق گزارش ہے کہ یہ مفاسدمحض جہالت اوربے علمی کی وجہ سےوقوع پذیرہوتے ہیں ورنہ جوسمجھدارلوگ ہیں وہ ان کا شکارنہیں ہوتے اگرمفاسدہی کودلیل بنایاجائے توایسے مفاسدجہالت کی وجہ سے صرف ایک ہی نکاح میں بھی آسکتے ہیں بلکہ ایسے مفاسدمشاہدہ میں بھی آئے ہیں رشتےداراپنی بچی کا ایک جگہ نکاح کردیتے ہیں لیکن بعدمیں کچھ اغراض کی خاطراپنی بچی روک دیتے ہیں یا فضول اورغیرشرعی شرائط لگادیتےہیں یہ باتیں قبول کروورنہ ہم اپنی بچی واپس نہیں کریں گےتوپھرایسے جہال کوکیاکیاکریں؟ درحقیقت وٹہ سٹہ نہ مفاسدکاسرچشمہ ہے نہ ہی اس میں کوئی خرابی ہے مگریہ خرابیاں محض جہالت کی وجہ سے پیش آتی ہیں یہ تووٹہ سٹہ نہ ہونے کی صورت میں بھی ممکن ہیں بلکہ واقع
Flag Counter