ہےجوآدمی اپنے خون ومال کے مدافعت میں دیتا ہے ہاں جس رشوت دینےسےآدمی آثم وگنہگارہوگاوہ یہ ہے کہ تورشوت اسےاس لیے دے کہ تجھے وہ چیزوغیرہ مل جائے جوتیری نہیں یا اس پر تیراحق نہ ہو۔ ‘‘
اس روایت کی سندکے دوراوی محمدبن سعیدبن رمانہ اوراس کےوالدسعیدبن رمانہ کاذکرفن رجال کی کتاب تہذیب التہذیب میں ملتا توہے، لیکن ان کے متعلق جرحاً وتعدیلاًکچھ نہیں لکھااورنہ ہی کسی دوسری کتاب سے کچھ مزیدپتہ چل سکا۔
بہرحال فتاوی نذیریہ کی عبارت سےآپ نے اندازہ لگالیاہوگاکہ ان کے ہاں جومال اپنے حق کے حاصل کرنے یاظلم کے دفع کرنے کے لیے دیا جاتا ہے وہ رشوت ہی نہیں لیکن امام بیہقی کی رائے یہ ہے کہ یہ بھی رشوت ہے اس لیے باب میں یہ لکھا ’’من اعطاها‘‘ اورهاکی ضمیررشوت کی طرف لوٹتی ہے جواس باب سے پہلے باب میں گزرچکی ہے لیکن اس طرح کی رشوت دینے والاگنہگارنہ ہوگااس طرح وہب بن منبہ کی عبارت بھی ظاہرہےکہ یہ بھی رشوت ہے لیکن اس کا دینے والاگنہگارنہ ہوگا۔
راقم الحروف کی تحقیق بھی یہ ہے یعنی آدمی اپنے حق حاصل کرنے کے لیے یا اپنی جان ومال سےظلم کی مدافعت کے لیے کچھ دیتا ہے تووہ رشوت توہےلیکن اس کے دینے والاآثم(گنہگار)نہ ہوگاکیونکہ وہ مجبورہے، البتہ لینے والاضرورگنہگارہوگاکیونکہ اس کے پاس اس مال کے لینے کا کوئی جوازنہیں ہے۔ ( و اللّٰہ اعلم )
راقم الحروف کو جوکتاب وسنت کی روشنی میں جوکچھ سمجھ میں آیا وہ ذکرکردیاہے اگرصحیح ہے تومن عنداللہ سےورنہ یہ میری غلطی ہے۔
قرآن کریم سورۃ الانعام میں ہے:
﴿وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا۟ مِمَّا ذُكِرَ ٱسْمُ ٱللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًۭا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَآئِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُعْتَدِينَ ﴾ (الانعام:۱۱۹)
|