Maktaba Wahhabi

528 - 660
جاتاہے۔ جب سندکےتمام راوی ثقہ ہیں اورمتن کسی دوسرے صحیح متن کے مخالف ومنافی نہیں تب بھی اس کومنکرسمجھناماسوائے زوری اوردھاندلی کے اورکچھ نہیں ہے۔ امام ابوحاتم کا مقام ومرتبہ بلاشبہ بلندہے ہم اس کےعلم کےمقابلے میں جہلاکے قریب ہیں، تاہم جوبھی انسان اگرچہ وہ امامت کے مرتبہ پرفائز ہولیکن اس سےغلطی اورسہووخطابہرحال ممکن ہےبلکہ وقوع پذیرہے، لہٰذا بلادلیل اورٹھوس ثبوت کے یہ کہناکہ یہ روایت منکرہے ہرگزقابل قبول نہیں ہےبلکہ مردودہے۔ خلاصہ کلام کے اس سند کے راوی حسین جعفی کااس روایت میں غلطی سےابن تمیم کوابن کہنے والی بات میں صرف امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ منفردہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائےنہیں دی ہےبلکہ،،یقال،،کہہ کرکسی غیرمعلوم محدث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہوسکتا ہےکہ ان کا یہ اشارہ امام ابوحاتم کی طرف ہی ہولیکن چونکہ امام ابوحاتم الرازی کی یہ علت صحیح نہیں ہےاس لیے ان کانام لینےکے بجائے مجہول فعل استعمال کرکےاس علت کی تمریض کی طرف اشارہ کیا ہے۔ و اللّٰہ اعلم باقی دوسرے اکثرائمہ حدیث جن میں امام داراقطنی جیسے معتدل امام کابھی نام شامل ہےوہ عبدالرحمٰن بن یزیدبن جابرسےحسین بن علی الجعفی کے سماع کے قائل ہیں۔ علاوہ ازیں حسین جعفی کے سماع کےلیے یہ بھی زبردست دلیل وثبوت ہے کہ صحیح ابن حبان میں یہ حدیث مبارکہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ اس سندکے ساتھ لائے ہیں۔ ((حدثناابن خزيمة حدثنا ابوكريب حدثناحسين بن علي حدثناعبدالرحمن بن يزيدبن جابر......الخ.)) کہ اس سندمیں حسین جعفی ابن جابرسےسماع کی(حدثنا)کہہ کرتصریح کررہے ہیں۔ لہٰذا عدم سماع کاقول مردودہے ورنہ اگران کاسماع ابن جابرسےنہ ہوتاتوحدثناکہنےسےیہ سیدھاساداجھوٹ ہوا۔ حالانکہ حسین جعفی نہ جھوٹانہ مجروح بلکہ ثقہ ، متقن اورپختہ عابدراوی ہے۔ لہٰذا جب ایساپختہ راوی اپنی تصریح کرتا ہے توباقی سارے ظنون اوربے دلیل
Flag Counter