Maktaba Wahhabi

70 - 660
اصطلاحاً’’یعنی علی اصطلاح اصول الفقہ‘‘اسےتقلیدکہناقطعاًغلط ہے۔لیکن مذکورہ آیت کریمہ بلکہ کسی اورآیت میں تقلیدشخصی یعنی معین شخص کی اتباع وتقلیدکواپنےاوپرلازم وضروری قراردینےکاثبوت ہرگزہرگزنہیں ملتاکیونکہ اگراولی الامرسےمرادعلماءوائمہ لیےجائیں تب بھی اس آیت میں اتباع کماحکم لاعلی التعین ہےیعنی خاص کسی عالم یاشخص کی اتباع کاحکم نہیں۔لہٰذااس سےیہ استدلال کرناکیسےدرست ہوسکتاہےکہ تم امام ابوحنیفہ یاامام شافعی رحمہم اللہ کی تقلیدہرمسئلہ میں اپنےاوپرلازم کرلویعنی: ﴿ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:٤٣) ’’پس تم اہل علم سےپوچھ لواگرتم نہیں جانتے۔‘‘ میں’’إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ‘‘کی شرط توتقلیدکوناجائزقراردیتی ہےپھریہ جوعلماءاحناف مسندتدریس پربیٹھ کرحدیث وتفسیرفقہ واصول صرف ونحو،معانی وبیان وغیرہ وغیرہ پڑھاتےرہتےہیں اورکتاب وسنت کےنکات بیان کرتےرہتےہیں،فقہ کےمسائل کی موشگافیوں میں مشغول رہتےہیں آخرانہیں تقلیدکرنےکی کیاضرورت ہے؟لیکن اس کےباوجودبھی تقلیدکرتےہیں۔تووہ اتنےعلم کےباوجوداپنےآپ کوغیرعالم یاجاہل قراردیتےہیں اوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ مہربانی ونعمت’’علم‘‘کابھی انکارکرتےہیں اوراحسان فراموش بنتےہیں بہرحال عالم کےلیےتقلیدجائزنہیں باقی رہاجاہل تواسےان آیات کےمطابق صرف کسی عالم سےبمع دلیل مسئلہ دریافت کرنےکی اجازت ہےلیکن’’لاعلي التعين والتشخص‘‘اوراس صورت میں بھی تقلیدباقی نہیں رہتی بلکہ عالم جاہل کومسئلہ کی دلیل پیش کرےگااوروہ دلیل کی اتباع کرےگانہ کہ اس کی مجرد رائےکی بہرحال تقلیدکی یہاں بھی جڑاکھڑگئی گویاان آیات سےتومطلق تقلیدبھی ثابت نہیں ہوتی پھراگرکوئی اتباع بالدلیل کوتقلیدکانام دےپھرکھینچ کراسےجاکرتقلیدشخصی تک پہنچادےتووہ اپنےعلم،عقل،صداقت وامانت،سمجھ،انصاف وعدالت کابےدردی سےخون کررہاہے۔ الغرض کہ آیات کریمہ میں تقلیدکی طرف اشارہ تک موجودنہیں چہ جائیکہ ان کوتقلیدشخصی
Flag Counter