Maktaba Wahhabi

8 - 660
لے کرجاتے ہیں پھر دوسرے فریق پر جاکردباوڈالتے ہیں کہ آپ کا یہ فتوی ہے جس میں ہماراحق بنتا ہے آپ ہمیں اپنا حق دے دویا کسی بڑے آدمی کے ذریعے یا کورٹ کے ذریعے اس پر دباو ڈلواتے ہیں کہ یہ پیر سائیں کا فتوی ہے جس میں ہمارا حق بنتاہے اس لیے ہمیں ہمارا حق دلوایاجائے حالانکہ اس کا حق نہیں بنتا کیونکہ اس نے جو بیان یا سوال تحریرکروایاوہ اصل واقعہ کے خلاف تھا لیکن کورٹ یا خانگی طرح فیصلہ کرنے والایہ کہہ کراس کی بات کو رد کردتیا ہے کہ بھائی یہ پیر سائیں کی طرف سے فیصلہ کیا ہوا ہے ،اس لیےاس میں جو کچھ بھی تحریر ہے وہ صحیح ہے۔اس لیے یک طرفہ تحریرنہ نکالیں جب دونوں فریقین موجود ہوں تب تحریرنکالیں تواس کے لئے عرض ہے کہ اکثر تحریرلکھوانے کے لیے وہ حضرات آتے ہیں جن کو فریق ثانی نہ اپنا حق دیتے ہیں اورنہ ان کے کہنے پر فیصلہ کرانے کے لئے تیار ہوتے ہیں غریب اورکمزورہونے کی وجہ سے وہ ان کا حق دبالیتے ہیں اس صورت میں وہ کیا کریں؟ اس لئے مجبورا یک طرفہ بیان پر تحریرلکھ کردی جاتی ہے جس سے وہ اپنا حق وصول کرپاتے ہیں ۔باقی رہی یہ بات کہ جو لوگ غلط بیان لکھتے ہیں تواس کے لئے ہم تحریر کے شروع میں یہ الفاظ لکھتے ہیں کہ :بشرط صحة السوالیعنی اگریہ سوال صیح ہے تواس کا یہ جواب ہے اگرسوال ہی غلط ہے توجواب بھی غلط ہوجائے گااورتحریر لکھنے والے مولاناصاحب کا یہ اصول تھا کہ تحریر کی ایک نقل مدرسہ میں بھی رکھتے تھے لیکن جب مولانا دوست محمدلکھمیہ صاحب اپنی علالت کی وجہ سے مدرسہ سے چلے گئے اوردوسرے مولانا صاحب نے چارج سنبھالا تو اکثر تحریر یں ادھر ادھر ہوگئیں اس کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب جوتحریرلکھتے توکبھی اس کی نقل رکھتےلیکن اکثراس کی نقل نہیں رکھتے تھے اس لیے اب تک جو مواد بھی باقی رہا اس کو ترتیب دے کر فتاوی کی صورت میں دی گئی۔ اس کے علاوہ بہت ساراموادتحریری صورت میں شیخ الحدیث جناب محترم مولانا افتخاراحمدالازہری صاحب نے دوسرے احباب کرام سے رابطہ کرکےلیا جن میں سرفہرست واجب
Flag Counter