Maktaba Wahhabi

80 - 660
ہے تو پھر ہمارے اندرایمان ہی نہ رہا۔اسی طرح بہشت (جنت)وغیرہ جس کا مومن بندوں کے ساتھ وعدہ ہے جو کہ آسمان پر ہے جس کا ہم مشاہدہ بھی نہیں کرسکتے: ﴿وَفِى ٱلسَّمَآءِ رِ‌زْقُكُم وَمَا تُوعَدُونَ﴾ (الذاريات:٢٢) ’’تمھاری روزی اورجوتم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘ توکیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارااتنا اوپرجانے کے باوجودبھی(یعنی راکٹوں اورہوائی جہازوں کے ذریعے)وہ ہمیں نظر نہیں آتے لہذا وہ ہیں ہی نہیں؟کیا ایک مومن یہ عقیدہ رکھ سکتا ہے؟دراصل بات یہ ہے کہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ہمارے امتحان کی وجہ سے ان کو پردہ میں رکھا ہے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ایمان رکھتےہیں یا نہیں؟پھر قیامت کے دن اس پردے کو ہٹایاجائے گاجیسے قرآن میں ہے: ﴿وَإِذَا ٱلسَّمَآءُ كُشِطَتْ﴾ (التكوير:١١) ’’اورجب آسمان کی کھال اتارلی جائے گی۔‘‘ یہاں مراداس پردہ کے ہٹانے کا ہے جو تمام چیزوں کے سامنے حائل ہے ۔لیکن جیسے ہی وہ ہٹے گا توپوری حقیقت بالکلیہ آنکھوں کے سامنے آجائے گی اورسورۃ نباء کا جو ترجمہ کیا گیا ہےکہ قیامت کے دن آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے یہ ترجمہ غلط ہے اصل آیت کریمہ اس طرح ہے: ﴿وَفُتِحَتِ ٱلسَّمَآءُ فَكَانَتْ أَبْوَ‌ٰبًا﴾ (النبا:١٩) ’’کہ آسمان کھولاجائے گاپس وہ ہوجائے گا دروازے دروازے۔‘‘ یہ بعینہ وہی بات ہے جس کو ہم نے پیچھے ذکرکیا یعنی عالم بالاجوہماری نظروں سےمستورہےوہ کھولاجائے گااورغیبی پردےہٹادیئے جائیں گےپھر اس کے دروازے ظاہرہوجائیں گے۔ معلوم ہواکہ آسمان میں بھی دروازے ہیں جو ہماری آنکھوں سے مستورہیں۔ سورۃ النباء کی یہ آیت ان دروازوں کے متعلق بالکلیہ فیصلہ کن بات بتاتی ہے اگر اس پر
Flag Counter