Maktaba Wahhabi

88 - 660
والے پانی میں اترتے دیکھا یہ قرآن کریم کے لفظ کا صحیح ترجمہ نہیں کیونکہ قرآن پاک کےالفاظ ہیں کہ : ﴿حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ مَغْرِ‌بَ ٱلشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُ‌بُ فِى عَيْنٍ حَمِئَةٍ﴾ (الکهف:٨٦) ’’یعنی یہاں تک کہ ذوالقرنین جب سورج کے اترنے کی جگہ پر جاپہنچا(یعنی مغرب کی طرف انتہاتک جاپہنچایعنی جہاں خشک زمین ختم ہوجاتی ہے اورسمندرشروع ہوجاتا ہے اور(اسے بحرروم یا جسے بہونوچ سمندرکہاجاتا ہےجو یورپ اورایشیا اورافریقہ کے درمیان میں)وہاں جاپہنچاتب اسے اس طرح سمجھ میں آیا کہ سورج کیچڑ والے پانی میں اتررہا ہے۔‘‘ یہ الفاظ اس لیے کہے گئے کہ ذوالقرنین ایسی جگہ پر جاپہنچاتھا جہاں سے آگے خشکی کاراستہ بالکل نہ تھابلکہ پانی ہی پانی تھا اوراس کے کنارے پر کھڑے ہونے کے بعد ہرکسی کو یہی محسوس ہوگا کہ سورج پانی میں اترگیا جیسا کہ حجاج کرام کو جب وہ حج پر جاتے ہیں توکراچی سے کچھ آگے سمند رمیں پہنچنے کے بعد ہر روز سورج سمندر سے طلوع وغروب ہوتا ہوامحسوس ہوتا ہے یہاں تک کہ خشکی کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ بہرحال ذوالقرنین مغرب کی جانب خشکی کی آخری حد پر جا پہنچاتھا (یعنی اقصائےمغرب)جس کے بعد پانی ہی پانی تھا۔لہذا اسے سورج اسی میں غروب ہوتا محسوس ہوا ہوگا نہ کہ واقعتاً اس نے سورج کو اس میں غروب ہوتے دیکھا جیسا کہ سوال میں ہے اوروجدہاکاترجمہ اس طرح اس لیے کیا گیا ہے کہ اس مقام پر ’’زار‘‘ہوتا تواس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اس نے دیکھا مگر یہاں پر لفظ وجد ہے اوریہ افعال قلوب میں سے ہے یعنی جوبات انسان آنکھوں سے نہیں مگر دل سے محسوس کرے ،ظاہر ہے کہ سورج کا اس پانی میں غروب ہوناذوالقرنین کو محسوس ہوا نہ کہ واقعتا ًغروب ہوا۔ لیکن اگر اس کا معنی آنکھوں سے دیکھنا کیا جائے تو بھی مطلب بالکل واضح ہے اس
Flag Counter