Maktaba Wahhabi

122 - 406
ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مرتدین کے ساتھ بہت سخت مقابلہ کرتے ہوئے انتہائی خطرناک اور خون ریز جنگیں لڑیں ۔جن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ اہل ردہ میں سے جن کے نصیب میں ہدایت تھی وہ دین اسلام کی طرف واپس لوٹ آئے۔اور قتل ہو نے والے حالت ارتداد میں قتل ہوگئے اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر اسلام کی عزت و قوت اور شوکت و ہیبت بحال ہوئی۔جزاہم اللّٰہ خیرالجزاء۔ امامیہ علماء میں سے سعد القمی کہتا ہے: ’’کچھ لوگ مرتد ہوگئے اور دین اسلام چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ بنو حنیفہ نے مسیلمہ کذاب کی نبوت کی طرف دعوت دینا شروع کردی۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت کا دعوی کیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید بن مغیرہ مخزومی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کا ایک لشکر جرار روانہ فرمایا۔ انہوں نے بہت سخت جنگ لڑی قتل ہونے والے قتل ہوئے اور کچھ لوگ واپس دین اسلام کی طرف پلٹ آئے۔ان لوگوں کو ’’اہل ردہ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔‘‘ [1] حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جب اہل عرب میں سے جن لوگوں نے مرتد ہونا تھا مرتد ہوگئے تو میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لیے حاضر ہوا اوران جنگوں میں اس وقت تک آپ کے ساتھ کھڑا رہا حتی کہ باطل مٹ کر ختم ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہی سر بلند ہوا اگر چہ کافروں کو یہ بات نا پسند ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تمام امور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوئے۔ آپ آسانی پیدا کرنے والے، سیدھے چلنے والے اور قریب لانے والے میانہ رو تھے۔ میں ایک خیر خواہ کی حیثیت سے آپ کی صحبت میں رہا اور ایک مجاہد کی طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں میں آپ کی اطاعت کرتا رہا ۔‘‘[2] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ وہ عظیم الشان مواقف ہیں جو انہوں نے اہل ارتداد اور اہل بدعت کے متعلق اپنائے تھے ۔جو کہ ان کی سچی دینداری ایمانی قوت اور دین میں آزمائش پر صبر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کے بہترین دلائل اور گواہیاں ہیں ۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے سنت کو قائم کیا، بدعت کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں ۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس سے ان لوگوں کا
Flag Counter