Maktaba Wahhabi

123 - 406
جھوٹ کھل کر واضح ہوتا ہے جو ان پر مرتد ہونے اور دین میں بدعات ایجاد کرنے کی تہمت لگاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے دور رکھا جائے گا۔ بلکہ حقیقت میں یہی حضرات تمام لوگوں سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے پینے کے حق دار ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے ساتھ بہترین صحبت اور ہمراہی پائی اور آپ کی وفات کے بعد اس دین کو قائم کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ: ’’ان میں سے بہت تھوڑے لوگ ہی بچ پائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ۔‘‘ اس حدیث سے چند صحابہ کے علاوہ باقی تمام حضرات کی تکفیر پر استدلال کرنے میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ حدیث میں وارد ’’منہم‘‘ کی ضمیر کا مرجع وہ لوگ ہیں جو حوض کے قریب آئیں گے مگر پھر انہیں وہاں سے ہٹا دیا جائے گا۔ توان میں سے بہت تھوڑے لوگ ہی بچ پائیں گے۔ یہ تو سیاق حدیث سے ظاہر ہے کیونکہ حدیث کی نص ان الفاظ میں ہے: ’’ اس اثنا میں کہ میں کھڑا ہوں گا تو ایک گروہ پر نظر پڑے گی، یہاں تک کہ جب میں انھیں پہچان لوں گا تو میرے اور ان کے درمیان سے ایک آدمی نکلے گا، وہ ان سے کہے گا کہ چلو۔ میں کہوں گا: کہاں ؟ وہ کہے گا کہ: دوزخ کی طرف۔ میں کہوں گا: ’’ان کا کیا حال ہے؟ وہ کہے گا: ’’ آپ کے بعد یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔‘‘ پھر ایک گروہ پر نظر پڑے گی یہاں تک کہ جب میں انھیں پہچان لوں گا تو ایک آدمی میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا وہ کہے گا کہ چلو۔ میں کہوں گا: کہاں ؟ وہ ان سے کہے گا کہ:’’ دوزخ کی طرف۔‘‘ اللہ کی قسم میں کہوں گا کہ:’’ ان کا کیا حال ہے؟‘‘ وہ کہے گا کہ یہ آپ کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے میں گمان کرتا ہوں ان میں سے صرف بغیر چرواہے کے اونٹ کے برابر کم نجات پائیں گے۔‘‘[1] اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کوئی ذکر تک نہیں ۔بلکہ اس میں لوگوں کے ایک گروہ کا ذکر ہے جنہیں حوض سے دور ہٹا دیا جائے گا۔ پھر ان میں سے بہت کم لوگ حوض تک پہنچ پائیں گے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ : ’’ میں گمان کرتا ہوں ان میں سے صرف بغیر چرواہے کے اونٹ کے برابر کم نجات پائیں گے‘‘اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حوض کے قریب آچکے ہوں گے اور بالکل قریب ہوگا کہ وہ حوض پر پہنچ جائیں مگر انہیں روک لیا جائے گا۔ ....اور یہ فرمانا کہ وہ
Flag Counter