Maktaba Wahhabi

125 - 406
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ جملہ کہنے والے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف ہے۔‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔[1] صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: وہ فرماتے ہیں : ’’جمعرات کا دن، آہ!جمعرات کا دن بھی کیسا تھا؟ اور پھر اتنا روئے کہ ان کے آنسوں سے سنگریزے تک بھیگ گئے اور پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہوئی تو آپ نے فرمایا :’’ لکھنے کے لیے کوئی چیز لاؤ کہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہی میں کبھی نہ پڑ سکو گے۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اختلاف نہ کرنا چاہیے تھا۔ لوگ بولے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ پوچھو لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا ۔[اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے]۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم لوگ مجھے بلا رہے ہو۔‘‘ اور آپ نے بوقت وفات تین وصیتیں کیں مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں انعام دیا کرتا تھا اور تیسری وصیت میں خود بھول گیا ۔‘‘ [2] ٭ معترضین کہتے ہیں : بلاشک و شبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ اختلاف ِکتابت ہی وہ چیز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا اور اس کے ساتھ ہی امت کو گمراہی سے عصمت سے محروم کر دیا اور اس پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے استدلال کیا ہے: ’’ہر قسم کی بدبختی اور مصیبت ہے جو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور آپ کی وصیت لکھوانے کے درمیان حائل کردی‘‘.... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق نصوص تحریر کروا دیں جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس میں آڑے آئے اور یہ کہا کہ آپ بخار کی وجہ سے بول رہے ہیں اور پھر کہا تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ ٭ ہل سنت و الجماعت اس کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور شفقت کی وجہ سے تھا۔ ورنہ ایسی بات کی امید کسی عام آدمی سے نہیں کی جاتی، چہ جائیکہ کسی عالم سے اس قسم کی بات صادر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کی اکثریت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہمنوا تھی۔ (کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے تو نہیں بول رہے؟) یہی وجہ
Flag Counter