Maktaba Wahhabi

126 - 406
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تحریر کے مسئلہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس لیے کہ آپ جان گئے تھے کہ ایسی تحریر کی آپ کی موت کے بعد بھی اتباع نہیں کی جائے گی۔ اس حادثہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حد سے تجاوز کر گئے آوازیں بلند ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہکی باتیں کرنے اور ہذیان گوئی کی تہمت لگائی گئی۔ ردّ :.... صحابہ کرام کا اختلاف ثابت شدہ ہے اور اختلاف کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا فہم اور سمجھ تھی اور مراد تھی نہ کہ آپ کی نافرمانی مقصود تھی۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس کے سبب سے ان تمام باتوں کو جائز اجتہاد پر محمول کیا جائے گا جس میں ان کا ارادہ اور مقصد نیک تھا اور پھر یا تو ہر مجتہد حق تک پہنچ رکھتا ہے یا کوئی ایک حق تک رسائی حاصل کر پاتا ہے۔ جبکہ دوسرے پر بھی کوئی گناہ نہیں ہوتا، بلکہ اسے اجر ملتا ہے۔ جیسا کہ ہم اس کا ذکر اصول میں بھی کر چکے ہیں ۔‘‘ [1] پھر آپ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے صحابہ رضي الله عنهم پر کوئی سختی نہیں کی اور نہ ہی کسی کو ملامت کیا، بلکہ آپ نے سب سے یہی بات کہی: ’’مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں ، وہ بہتر ہے۔‘‘ اسی طرح کاایک واقعہ خندق کے موقع پر بھی پیش آیا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی نماز نہ پڑھے، مگر بنوقریظہ پہنچ کر۔‘‘[2] پس جب کچھ لوگوں کو نماز کا وقت نکل جانے کا خوف ہوا تو انہوں نے بنوقریظہ پہنچنے سے قبل نماز پڑھ لی اور باقی لوگ کہنے لگے: ہم وہیں پر نماز پڑھیں گے جہاں کا حکم ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک فریق پر کوئی بات یا جرح نہیں کی۔‘‘ [3] ان لوگوں کا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے استدلال کرنا کہ ’’ہر قسم کی بدبختی اس انسان کے لیے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تحریر کے لکھے جانے میں رکاوٹ بنا۔‘‘ اس میں ان لوگوں کے حق میں کوئی دلیل نہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ رکاوٹ بننے والا بدبختی اور نحوست ہو۔ یہ بدبختی اس انسان کے حق میں ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شک کرے اوراس پر یہ معاملہ مشتبہ ہو جائے
Flag Counter