Maktaba Wahhabi

148 - 406
کتاب ہے، وہ ایسے مضامین کو شامل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اصحاب کو ایسا بنایا ہے جن سے کفار غیض و غضب کا شکار ہوں ، ارشاد فرمایا: ﴿ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ﴾ [الفتح: ۲۹] ’’تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے۔‘‘ پھر یہ بات محال ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان کی مذمت کر کے ان کے خلاف اور کفار کے حق میں حجت قائم کر دیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَنْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾[ النساء: ۱۴۱] ’’اور اللہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہر گز کوئی راستہ نہیں بنائے گا۔‘‘ اس سے ان لوگوں کے عقیدہ کا بودا پن ظاہر ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں قرآن کریم میں صحابہ کی مذمت وارد ہوئی ہے۔جہاں تک روایات اور آثار کا تعلق ہے، تو جن روایات میں صحابہ کے مثالب بیان ہوئے ہیں ان کی دو اقسام ہیں : پہلی قسم:.... جو کہ جھوٹ ہیں ۔ یا تو پوری پوری روایات جھوٹ پر مبنی ہیں یا پھر ان میں کمی بیشی کر کے تحریف کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان سے مذمت اور طعن کا پہلو نکلتا ہے اور اکثر وہ روایات جن سے صریح اور واضح طعنہ زنی کا پہلو نکلتا ہے، وہ اسی باب سے تعلق رکھتی ہیں ۔ جنہیں ایسے راوی نقل کرتے ہیں جن کا کذاب ہونا مشہور و معروف ہے، جیسا کہ ابو مخنف لوط بن یحییٰ، ہشام بن محمد بن السائب الکلبی اور ان کے امثال و ہمنوا۔ یہی وجہ ہے کہ طعنہ زنی کرنے والے اکثر طور پر ہشام الکلبی کی تصنیف سے استدلال کرتے ہیں ۔ یہ تمام لوگوں میں سب سے بڑا کذاب تھا۔ وہ اپنے باپ اور ابو مخنف دونوں سے روایت کرتا ہے۔ یہ دونوں افراد متروک اور کذاب ہیں ۔ دوسری قسم:.... وہ روایات جو سچ پر مبنی ہیں ۔ ان میں سے اکثر امور میں صحابہ معذور تھے۔ جس کی وجہ سے وہ گناہ کے دائرہ سے نکل جاتے ہیں اور یہاں پر یہ امور موارد اجتہاد ٹھہرتے ہیں ۔اور مجتہد کی رسائی اگر درست رائے تک ہو جائے تو اس کیلئے دوہرا اجر ہے اور اگر درست رائے تک رسائی نہ ہو توبھی اس کے لیے ایک اجر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق عام ثابت منقولات کا تعلق اسی باب سے ہے، اور ان میں سے بھی جن امور کا گناہ ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو تب بھی ان کے معلوم شدہ فضائل و مناقب اور سبقت اسلام اور جنتی ہونے کی وجہ سے ان کی شان میں موجب طعن نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یقینی گناہ کی سزا آخرت میں کئی امورکی وجہ
Flag Counter