Maktaba Wahhabi

213 - 406
نہ کہ طعنہ زنی کے طور پر۔ کیونکہ تنقید نگار خود اس روایت کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتا ہے، پھر وہ کیسے یہ گمان کرتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عداوت کو دل میں چھپائے ہوئے تھے؟ پھر یہ کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں مقصود حضرت علی نہیں تھے اس لیے کہ بالفرض اگر ان سے قبل حضرت ابوبکر و عمر یا عثمان رضی اللہ عنہم آ جاتے تو بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ یہی برتاؤ کرتے۔ (جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے) جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا اس لیے کہ آپ اپنی قوم سے محبت کرتے تھے تو آپ چاہتے تھے کہ یہ منقبت ان کی قوم کے کسی آدمی کو نصیب ہو جائے۔ اس تمام واقعہ میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی توبیخ نہیں کی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے دل کی بات معلوم ہو گئی تھی۔ بلکہ آپ نے فرمایا: جاؤ اور اسے اندر لے آؤ، اپنی قوم سے محبت کرنے والے تم پہلے فرد نہیں ہو۔ اگر حضرت انس رضی اللہ عنہ کا عمل غلط ہوتا (جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور آپ کو ڈانٹتے۔ عمومی طور پر یہ قصہ سند کے اعتبار سے ساقط الاسناد ہے اور سنن میں اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ ایسے تنقید نگار کیسے بھلائی کو برائی بنا کر پیش کر دیتے ہیں ۔ پھر یہ تنقید نگار اپنا پیمانہ لبریز کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتا ہے۔ پھر اس نے حق کی گواہی چھپائی۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے لوگوں کو قصہ غدیر خم میں لوگوں کو قسم دینے اور ان سے گواہی طلب کرنے کے قصہ میں مذکور ہے۔ پس کچھ لوگوں نے گواہی دی اور کچھ نے انکار کیا۔ انس رضی اللہ عنہ انکار کرنے والوں میں سے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں بددعادی، آپ کی بددعا تیر بہدف ثابت ہوئی اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ جھوٹے انسان کی روایت قبول نہیں کی جاتی اور گواہی چھپانا بہت بڑا کبیرہ گناہ اورراوی کی عدالت میں قدح ہے۔ ٭ میں کہتا ہوں : اگر اس قصہ کو بالفرض صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے، تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں بولا اور حاشا و کلا کہ آپ روایت میں جھوٹ بولیں ۔ جبکہ اللہ عزوجل نے سات آسمانوں کے اوپر سے آپ کی عدالت قرآن کریم میں بیان کی ہے۔ لیکن جہان تک کذابین سے روایت اور ان کی اخبار قبول کرنے کا تعلق ہے تو ہم چاہیے کہ اس موضوع پرہم فریق مخالف کے علماء کے اقوال پر ہی نظر ثانی کر لیں اور ہمیں ان کی کتب میں محمد بن سنان کے حالات زندگی دیکھنے چاہئیں ۔ کشی حمدویہ سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:
Flag Counter