Maktaba Wahhabi

215 - 406
صحیح مسلم: عن ابی بکر بن ابی شیبۃ، عن ابی معاویۃ ، و وکیع، و عن یحیی بن یحیی، و اللفظ لہ۔ اخبرنا معاویۃ، عن الاعمش ، عن ابراہیم، عن الاسود، عن عائشۃ۔ نسائی: عن محمد بن العلاء، عن ابو معاویۃ، عن الاعمش عن ابراہیم عن الاسود، عن عائشۃ۔ احمد: عن عبداللّٰہ ، عن ابیہ، عن وکیع، حدثنا الاعمش، عن ابراہیم، عن الاسود، عن عائشۃ۔ ابن ماجہ: عن ابوبکر بن ابی شیبۃ، عن ابی معاویۃ، و وکیع، عن الاعمش، و عن علی بن محمد، عن وکیع، عن الاعمش، عن ابواہیم، عن الاسود، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا۔ اسود سے ابتدا کرتے ہوئے کہتا ہے اسود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منحرف لوگوں میں سے تھا۔ پھر کہتا ہے: اس سے روایت کرنے والا راوی تمام اسناد مذکورہ میں ابراہیم بن یزید النخعی ہے، جس کا شمار اعلام مدلسین میں ہوتا ہے۔ ابو عبداللہ یعنی امام حاکم نے کہا ہے: اس کا شمار مدلسین کے چھوٹے طبقہ میں ہوتا ہے۔ ایک قوم نے احادیث میں تدلیس کی اور انہیں مجروحین سے روایت کیاہے، اور ان کے نام اور کنیتیں بدل دیں تاکہ ان کا پتا نہ چل سکے۔ کہتا ہے: ....اخبرنی عبداللّٰہ بن محمد بن حمدویہ الدقیقی، قال حدثنا جعفر بن ابی عثمان الطیالسی، قال حدثنی خلف بن سالم، قال: سمعت عدۃ من مشائخ اصحابنا .... وہ آپس میں کثرت کے ساتھ تدلیس اور مدلسین کا تذکرہ کر رہے تھے۔ پس ہم ان کی روایات میں تمیز کرنے میں لگ گئے۔ سو ہم پر حسن بن ابی الحسن اور ابراہیم بن یزید النخعی کی تدلیس مشتبہ ہو گئی۔ اس لیے کہ حسن اپنے اور صحابہ کے درمیان بہت سارے مجہول لوگوں کو لے آتا ہے اور کبھی کبھار عتی بن ضمرۃ، حنیف بن المنتجب اور دغفل بن حنظلۃ اور ان کے امثال راویوں سے تدلیس کرتا ہے اور ایسے ہی ابراہیم بھی اپنے اور اصحاب عبداللہ کے مابین بہت سارے لوگوں کو داخل کر دیتا ہے، جیسا کہ ہنی بن لویرہ، مسہم بن مستجاب اور خزامہ الطائی اور اکثر اوقات ان سے بھی تدلیس کرتا ہے۔‘‘[1] ٭میں کہتا ہوں : اس تنقید نگار نے جو کہا ہے کہ امام حاکم نے ضعیف کہا ہے اور پھر اس روایت کو ابراہیم
Flag Counter