Maktaba Wahhabi

216 - 406
کی سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب کے ساتھ مقید کیا ہے، یہ حدیث ان روایات میں سے نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے اپنے ماموں اسود بن یزید سے براہ راست روایت کیا ہے، اس سے اس کی روایات بہت زیادہ ہیں اور یہ راوی اپنے ماموں سے رویات کرنے میں تدلیس نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ان سے نقل کرنے والا یہ راوی بڑا مشہور ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ حاکم نے بھی یہ کہا ہے کہ کبھی کبھار تدلیس کرتا ہے۔ ٭ اس تنقید نگار نے اس علمی امانت کا یہ حشر کیا کہ عبارت کو بدل کر یوں کر دیا کہ وَ ہُوَ مِنْ اَعْلَامِ الْمُدَلِّسِیْنَ ’’اور وہ چوٹی کے مدلسین میں سے ہے۔‘‘ اور اس پربھی مستزاد یہ کہ ابراہیم النخعی کو کتب الرجال میں کہیں بھی مدلس نہیں کہا گیا۔ مزید برآں کہ وہ کتب تراجم جن کی طرف اس تنقید نگار نے رجوع کیا ہے، وہ نخعی کے بارے میں اس کا اپنا یہ قول نقل کرتی ہیں کہ ’’جب میں تم سے عبداللہ سے حدیث بیان کروں ، تو وہ وہی عبداللہ ہے جس کے متعلق تم سن چکے ہو اور ایسے ہی جب میں کہتا ہوں : قال عبداللہ تو یہ وہ روایت نہیں ہوتی جس میں میں عن عبداللّٰہ کہتا ہوں ۔‘‘[1] بالعموم یہاں پر یہ روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں ۔ یہاں پر ایک اور باریک اور اہم نقطہ ہے کہ ہنی بن نویرہ اور سہم بن منجاب دونوں ثقہ راوی ہیں اور خزاعہ الطائی کے حالات زندگی ہمیں نہیں مل سکے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابراہیم نخعی کے بارے میں امام حاکم کا کلام خطا پر مبنی تھا۔ رحمہما اللّٰہ۔ پھر اس تنقید نگار نے تدلیس کی تہمت لگاتے ہوئے حضرت اعمش پر بہتان طرازی کی ہے اور یہ بھول گیا کہ اعمش اسلام کے بہت بڑے راویوں میں سے ہیں ۔ اعمش پر طعن کرنے والا درحقیقت اپنی ذات پر طعنہ زنی کرتا ہے۔ اس لیے کہ اعمش عمداً تدلیس نہیں کرتا تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ شیعہ اور اہل سنت کے ہاں معتبر راویوں میں سے ایک ہے۔ عبدالحسین موسوی نے المراجعات میں اس کا دفاع کیا ہے۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس تنقید نگار نے جب زہری پر تنقید کرنا تھی، تو اس نے ابن معین کا قول زہری پر اعمش کی فضیلت میں بطور استشہاد پیش کیا تھا۔ حالانکہ یحییٰ بن معین کا کلام جسے یہ نقاد غلط سمجھا ہے، وہ ایسے شروع ہوتا ہے: عمدہ ترین سند یہ ہے: اعمش، عن ابراہیم، عن علقمہ، عن عبداللّٰہ۔ یعنی اعمش کی ابراہیم سے روایت نمایاں ترین روایات میں سے ہے۔ اس لیے کہ ان کی صحبت بہت لمبا عرصہ رہی ہے اور اس سند کی نسبت سلسلہ ذہبیہ کی طرف ہوتی ہے اور اس تنقید نگار کو بھی یہ علم ہے کہ یحییٰ بن معین امام بخاری اور مسلم رحمہ اللہ کے استاذ اور ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں ۔
Flag Counter