Maktaba Wahhabi

217 - 406
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ صحیح و سقیم حدیث کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ آپ کی وفات ۳۰۲ ہجری میں ہوئی۔ آپ کے حالات زندگی تذکرۃ الحفاظ (۲؍۴۲۹) اور دیگر کتب میں موجود ہیں ۔ پس حضرت اعمش اور ابراہیم نخعی پر ان کی تنقید کی کوئی بنیاد ہی نہیں ۔ اگر وہ اس کو کسی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا ہے تو پہلے اسے اپنے دعوے ختم کرنا ہوں گے۔ جن میں اس نے اس روایت پر اعتماد کرتے ہوئے زہری پر تنقید کی ہے۔ پھر وہ حفص بن غیاث پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے کہتا ہے: پھر بخاری کی ایک روایت میں ابو معاویہ سے روایت کرنے والا حفص بن غیاث ہے، جو کہ مدلسین میں سے ہے اور اس کے لیے اس نے تہذیب التہذیب کا حوالہ دیا ہے۔ اب ہم تہذیب میں دیکھتے ہیں کہ کیا لکھا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : آپ ائمہ اثبات میں سے ہیں ۔ آپ کے ثقہ اور قابل حجت ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ ہاں آخری عمر میں آپ کے حافظہ میں کمزوری آ گئی تھی۔ پس جن حضرات نے ان کی کتاب سے سماعت کی ہے، وہ ان لوگوں سے بہتر ہیں جنہوں نے آپ کے حافظہ سے سماعت کی ہے۔ یہ ابوزرعہ کا قول ہے۔ ابن المدینی نے کہا ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہا کرتے تھے: اصحاب اعمش میں سے حفص سب سے ثقہ راوی ہیں ۔ مزید کہتے ہیں : میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تھا، جب میں دوسری بار کوفہ آیا تو ان کے بیٹے عمر نے اپنے باپ کی ایک کتاب نکال کر میرے سامنے رکھی، جو کہ اعمش سے مروی تھی، تو میں القطان کے لیے رحمت کی دعا کرنے لگا۔ میں کہتا ہوں :’’ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اعمش سے حفص کے روایت کرنے پر اعتماد کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ زیادہ بہتر جانتے تھے کہ کس حدیث میں اعمش نے صراحت کی ہے اور کس میں تدلیس کی ہے۔ ابو الفضل الطاہر نے اس طرف توجہ دلائی ہے اور بات ویسے ہی ہے جیسے اس نے کہی ہے، اس لیے کہ حفص سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔[1] پس یہ حدیث اس اکیلی سند کے ساتھ بخاری میں آئی ہے، جو کہ احتجاج کے قائم مقام ہے۔ اس لیے حفص بن غیاث پرطعن نے تنقید نگار کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے کہ حفص اصحاب اعمش میں سب سے زیادہ ثقہ و ثبت راوی ہے۔ پس حفص کی اعمش سے روایت میں کوئی تدلیس نہیں پائی جاتی۔ بلکہ آپ اعمش سے روایت کی کیفیت کو وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں اور اعمش سے حفص کی روایت ممتاز اور جداگانہ ہوتی ہے اس سے مدلس اور غیر مدلس روایت میں فرق ہوتا ہے۔ پس یہ معلوم رہے کہ حفص کی اعمش سے روایت
Flag Counter