Maktaba Wahhabi

25 - 406
کہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ جب انہوں نے سند بیان کردی ہے؛ جس کی وجہ سے اس روایت کا سچ یا جھوٹ ہونا معلوم ہوسکتا ہے [تو وہ اس سے بری ہو گئے ہیں ] اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ہر روایت کی تحقیق کرنے میں کئی وجوہات کی بنا پر مشکلات کا سامنا تھا، مثلاً: اس حدیث کی دوسری اسناد بھی ہوسکتی ہیں جن کی بنا پر اس موضوع یا ضعیف سند کا ازالہ ہوجائے۔ یا پھر بعض راویوں کا ضعیف ہونا ان کے ہاں ثابت نہ ہو۔ یا ان کے علاوہ دیگر کئی اسباب ہوں اور اس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے ان کے ہاں اپنی کتاب میں روایت ذکر کرنے کے لیے اس کا صحیح ہونا شرط نہ ہو۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی کتابوں کے مقدمات میں اس چیز کی صراحت کی ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود علمائے کرام نے موضوع روایت کو اس کا جھوٹ ہونا ذکر کئے بغیر بیان کرنے کو ناجائز کہا ہے اور ایسا کرنے والے انسان کو گنہگار شمار کیا ہے جس پر توبہ کرنا واجب ہے۔ ان میں سے سب سے خطرناک ذریعہ لوگوں کی جہالت اور لاعلمی سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس لیے کہ بہت سارے لوگوں کو تخریج حدیث اور فقط ذکر حدیث کے مابین فرق کا پتہ نہیں ہوتا۔ حدیث ذکرکرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں صرف اس مصدر کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں پر یہ روایت موجود ہو۔ کبھی یہ روایت موضوع بھی ہوسکتی ہے جس کا موضوع ہونا مؤلف نے اپنی جگہ پر ذکر کیا ہوگا۔ لیکن شکوک و شبہات کو ہوا دینے والے روایت کو نقل کرتے وقت اس کی حقیقت کو بیان نہیں کرتے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ مصنف نے اس پر ردّ بھی ذکر کیا ہو مگر یہ لوگ صرف کتاب میں اس روایت کے وجود سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں پر معاملہ ملتبس کر دیتے ہیں ، اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ مسلّمہ امور میں سے ہے۔ اس لیے کہ ان کے مخالفین تک نے اسے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ اکثر شبہات کا تعلق انہی دو اقسام سے ہے۔ دوسرا معاملہ تخریج کاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حدیث کی سند اور متن کا تحقیقی مطالعہ و جائزہ لینا تاکہ اس کی صحت یا ضعف کو بیان کیا جاسکے اور یہ وہ علت ہے جس کا اظہار بہت سارے علماء اپنے اقوال میں کرتے آئے ہیں کیونکہ محض کسی روایت کے کسی کی طرف منسوب ہونے سے اس کی صحت ثابت نہیں ہوتی، یا اس کی وجہ سے حجت قائم نہیں ہوجاتی، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس بارے میں ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بہت سارے مؤرخین و مفسرین اور ائمہ نقل کے ہاں حکایات اور واقعات میں مغالطہ پیش آیا ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگ صرف نقل پر اعتماد کرتے تھے اور صحیح و سقیم کے چکر میں نہیں پڑتے تھے۔‘‘
Flag Counter