Maktaba Wahhabi

259 - 406
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسی بات کہیں یا پھر اپنے متعلق خلافت کا دعوی کریں ۔اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کسی کا حق نہیں مارا تھا اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے ویسے ہی مستحق ہوتے جیسے اس تنقید نگار کا دعوی ہے تو تمام لوگ آپ کی بیعت کر لیتے اس پر شیعہ اور اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے۔ ۲۔ بطور مناظرہ فرض کر لیجیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کچھ فرمایا بھی تھا، تو بھی اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح ہے۔ بلکہ یہ قول خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کا موجب بن رہا ہے۔ اس لیے کہ ہم اس سے قبل یہ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت بغیر کسی اکراہ کے بالاجماع منعقد ہوئی تھی۔ مہاجرین و انصار بشمول بنو ہاشم نے بغیر کسی جبر اور زبردستی کے بیعت کی تھی۔ ایسا کرنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ طرف سے کسی کی حق تلافی میں نہیں تھا۔ لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ جانتے ہیں مجھے خلافت کے لیے وہی حیثیت حاصل ہے جو چکی کے لیے چرخ کی ہوتی ہے۔ تو ہم کہتے ہیں اللہ کی پناہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی ایسی شخصیت سے آگے بڑھیں جس کا خلیفہ ہونا نص سے ثابت ہو اور اگر خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق ہوتی تو لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لیتے۔ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو یہ بھی پتا چل گیا کہ خلافت کے صحیح حق دار اور اس منصب کے اہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل تار عنکبوت سے زیادہ قوت نہیں رکھتے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دلائل کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے والے ہیں ۔ ۳۔ یہ بات تو واضح دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔ بھلے یہ پہلے مرحلہ میں ہو یا پھر چھ ماہ بعد۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہا جسے خطبہ ’’شقشقیہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اوریہ باتیں جھوٹ گھڑا کر آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں ، تو ہمارا کلام حق اور درست ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے تقیہ سے بیعت کی تھی تو ہمارا جواب یہ ہے کہ حاشا و کلا کہ حق واضح اور جلی نصوص کی روشنی میں آپ کے ساتھ ہو اور پھر آپ کسی شخص کی وجہ سے حق سے تنازل کر لیں ۔ یا ظاہری طور پر تقیہ کرتے ہوئے کسی کی بیعت کر لیں ، یہ تو عین منافقت اور بزدلی ہے، ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس سے منزہ مانتے ہیں ۔
Flag Counter