Maktaba Wahhabi

282 - 406
ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے، اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں ۔[1] ٭ اس کا جواب یہ بھی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق پر بہت ہی زیادہ حزن وملال اور رنج والم محسوس کیا تھا۔ آپ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ روز بروز کمزور ہوتی جاتیں ۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد آپ بھی آپنے رب سے جاملیں ۔ ابن کثیر رحمہ اللہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دکھ درد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ کہا جاتا ہے کہ اپنے والد محترم کے بعد جتنا عرصہ زندہ رہیں کبھی آپ ہنسی نہیں تھیں اور آپ اپنے والد محترم کے حزن وملال اور ان سے ملاقات کے شوق میں روز بروز ایسے کمزور ہوتی جارہی تھیں گویا کہ پگھل رہی ہوں ۔‘‘[2] ٭وجہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کثرت کے ساتھ آپ کی خدمت ومدارت میں رہتے، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں کمی آگئی۔ اس کو بنیاد بنا کر منافقین نے یہ مشہور کر دیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کو ناپسند کرتے ہیں ۔ یہ بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات حسرت آیات کے بعد دوبارہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا سبب بن گئی۔ سیّدناابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول:’’ کاش! میں نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی تلاشی نہ لی ہوتی‘‘ انہوں نے معجم الکبیرا ز امام الطبرانی رحمہ اللہ سے یہ روایت بطورِ دلیل پیش کی ہے، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی عیادت کے لیے حاضر ہوا، یہ اس بیماری کی بات ہے جس میں آپ فوت ہوئے۔ میں نے آپ کو سلام کیا، اور حال احوال دریافت کیے۔ تو آپ سید ھے ہو کر بیٹھ گئے.... او رپھر فرمایا: ’’ مجھے کسی چیز پر کوئی افسوس نہیں ہے مگر تین کام میں نے ایسے کئے ہیں جن پر مجھے افسوس ہے، مجھے یہ بات پسند تھی کہ اگر میں نے یہ کام نہ کئے ہوتے....‘‘ پھر آپ نے وہ کام شمار کئے۔ ان میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ کاش کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی تلاشی نہ لی ہوتی، اور اسے یوہی چھوڑ دیا ہوتا، اور اپنے آپ پر جنگ کادر وازہ بند کر دیا ہوتا ....الخ جواب:.... یہ اثر امام ابطرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے، یہ ضعیف ہے، اسی سے ضیاء المقدسی نے ’’المختارہ‘‘ میں اور ابن زنجویہ نے کتاب الاموال میں نقل کیا ہے، اورعقیلی اسے ’’الضعفاء‘‘ میں لایا ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ، اور الطبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter