Maktaba Wahhabi

283 - 406
اوّل:.... اس کی تمام اسناد کا مدار ان بن داؤد الجیلی پر ہے، یہ ضعیف راوی ہے، تمام ائمہ کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ امام بخاری اس کے بارے میں کہتے ہیں ، منکر حدیث ہے۔ ابن یونس نے بھی یہی کہا ہے، کئی ائمہ نے اس کا یہ اثر ذکر کر کے کہا ہے! یہ اس کے منکرات میں سے ہے۔ ان ائمہ میں سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ المیزان میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’السان المیزان‘‘ میں اور العقیلی نے ’’الضعفاء‘‘ میں اس کا ذکر لیا ہے۔[1] عقیلی نے الضعفاء میں کہاہے: اس کی حدیث کی کوئی متابع روایت نہیں ، اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ علامہ ہیثمی نے ’’المجمع‘‘ میں کہا ہے! یہ روایت امام طبرانی سے روایت کی ہے، اس میں علوان بن داؤد ہے، جو کہ ضعیف ہے اور اس اثر کا علماء نے ان کار کیا ہے۔‘‘[2] اور اگریہ کہا جائے! یہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جس میں علوان بن داؤد نہیں ہے جیسا کہ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے۔ ٭ہم کہتے ہیں :یہ اسناد بھی محفوظ نہیں ہیں ۔کیونکہ ابو الہیثم خالد بن القاسم متروک راوی ہے۔ ائمہ حدیث اور محدثین اس کی روایات قبول نہیں کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس سے روایت کو ترک کر دیا تھا۔ کیونکہ یہ انسان اسانید میں کمی بیشی کیا کرتا تھا۔ خصوصاً امام لیث رحمہ اللہ کی اسنادمیں ۔ امام کے وہ شاگرد جو اس کے طبقہ کے لوگ شمار ہوئے ہیں ، اور انہوں نے امام لیث رحمہ اللہ سے احادیث روایت بھی کی ہیں ، وہ اس سند پر ہے: عن لیث بن سعد عن علوان بن داود عن صالح بن کیساں بہ۔ ان میں ایک راوی یحییٰ بن عبداللہ ابن بکیر ہیں ، وہ لیث سے روایت کرنے میں ثقہ ہیں اور ان میں عثمان بن صالح اعصری بھی ہے، وہ صدوق ہے اور ان راویوں میں امام لیث کا کاتب ابو صالح ہے، اس سب میں کوئی شک وشبہ والی بات نہیں کہ لیث سے روایت کرنے والی جماعت کو فرد واحد پر ترجیح دی جائے گی اور اس کی تاکید وتائید اس سے ہوتی ہے کہ سعید بن عقیر نے لیث بن سعد کی متابعت کی ہے۔ جو کہ طبرانی میں موجود ہے۔ اس نے علو ان بن داؤد بجلی سے، اس نے اسی سند سے حمید سے روایت کیا ہے۔ یہ سعید بن عفیرغیر ثقہ ہے۔ اس بنیاد پر صحیح بات یہ ہے کہ یہ اثر جیسا کہ آئمہ سے پہلے گزر چکا ہے کہ علوان بن داؤد کے مفردات اور منکر ان میں سے ہے۔ اس روایت کا کسی اور کی سند سے علم تک نہیں ہو سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں کہا ہے، حالانکہ اسی نے اس روایت کی تخریج بھی کی ہے، وہ کہتا ہے: اسے
Flag Counter