Maktaba Wahhabi

350 - 406
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر امر اء وعمال کا تعلق بنو امیہ سے تھا۔‘‘[1] ۱۔ عتاب بن اُسیدبن ابو العاص بن امیہ اموی رضی اللہ عنہ کو حاکم مکہ مقرر کیا جو روئے زمین کا سب سے محترم گوشہ ہے۔[2] ۲۔ خالد بن سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہ کو صنعاء یمن اور بنی مذحج سے صدقات وصول کرنے پر عامل مقرر کیا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسی منصب پر فائز رہے۔ ۳۔ اس کے دونوں بھائیوں حضرت ابان بن سعید ابن العاص رضی اللہ عنہ اور سعید بن سعید رضی اللہ عنہ کو دوسرے اعمال[تیماء، خیبر اور عرینہ کی بستیوں ] پر عامل مقرر فرمایا تھا۔ ۴۔ ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو پہلے بعض سرایا پر امیر مقرر کیا او رپھر بحرین کا والی مقرر کیا ۔ وہ حضرت العلاء الحضرمی رضی اللہ عنہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اس منصب پر فائز رہے ۔ ۵۔ابوسفیان بن حرب بن امیہ اموی رضی اللہ عنہ اور اس کے بیٹے حضرت یزید رضی اللہ عنہ کو نجران کا عامل مقرر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ لوگ اسی منصب و ذمہ داری پرتھے۔ ٭جب حضرت امیر معاویہ شام کے والی بنے تو آپ کی سیاست افضل واعلی سیاست تھی۔ آپ اپنی رعایا سے محبت کرتے تھے اور رعایا آپ سے ٹوٹ کر محبت کرتی تھی۔ قبیصہ بن جابر کہتے ہیں : ’’ میں نے بردباری، سیادت، دور اندیشی، نرم روی اور کھلے سینہ والا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو انتہائی بری گالیاں سنائیں ۔ آپ سے کہا گیا: ’’اگر آپ اس کو کچھ آدب سکھاتے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’ مجھے اللہ تعالیٰ سے حیاء آتی ہے کہ میرا حلم ودر گزر میری رعایا کے کسی آدمی کے لیے تنگ ہو جائے۔‘‘ اور ایک آدمی نے آپ سے پوچھا: اے امیر المؤمنین! آپ اتنے حلیم اور بردبار کیسے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: مجھے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ کسی کا گناہ میرے حلم سے بڑھ کر ہو۔‘‘ [3]
Flag Counter