Maktaba Wahhabi

386 - 406
’’ ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، جس وقت رات کے آخر کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ تو فرماتا ہے:’’ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں ۔‘‘ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے اور میں اسے بخش دوں ۔‘‘ [1] کہتے ھیں :نزول اور صعود، آنا جانا، حرکت اور نقل مکانی اور سارے عوارض حادث ہیں ۔ جواب: ....حدیث نزول فریقین کے مابین متفق علیہ ہے، اہل بیت کی روایت میں صدوق نے اپنی کتاب ’’التوحید‘‘ میں امام صادق سے ثنویہ اور زنا دقہ کے خلاف دلائل میں نقل کی ہیں ۔ آپ سے پوچھا گیا: کیا آپ اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: ہمارا یہ عقیدہ ہے۔ اس لیے کہ یہ صحیح روایا ت اور احادیث سے ثابت ہے۔‘‘ سائل نے پوچھا :جب اللہ تعالیٰ عرش سے نازل ہوتے ہیں تو کیا اس میں تحویل (اور عرش کا خالی ہونا) لازم نہیں آتا اور ایک صفت کا حدوث نہیں ہوتا؟ تو ابو عبداللہ نے فرمایا: نزول الٰہی مخلوقات کے نزول کی طرح نہیں ہے، جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو پہلی جگہ خالی ہو جاتی ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں تو بغیر تھکاوٹ اور حرکت کے نازل ہوتے ہیں ، اور اس وقت اللہ سات آسمانوں کے اوپر عرش پر بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے آسمان دنیا پر۔‘‘ [التوحید ص: ۲۴۸۔] جابر جعفی سے روایت ہے، وہ کہتا ہے: میں نے ابو عبداللہ سے سنا، وہ فرماتے تھے:’’ اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں دنیا وی آسمان پر نازل ہوتے ہیں ، اور آواز لگاتے ہیں : کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے اس کی تو بہ قبول کی جائے۔ اور ہے کوئی جو گناہوں کی بخشش مانگنے والا ہو، اور میں اس کے گناہ بخش دوں ؟ اور کوئی دعا کرنے والا ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کی مشکل دور کردوں ۔ اور کوئی تنگ دست ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کے رزق میں وسعت دیدوں ۔ اور کوئی مظلوم ہے جو مجھ سے مدد کا طالب ہو، اور میں اس کی مدد کروں ؟‘‘[2] احسائی المعروف ابن ابی جمہورنے نزول کی صفت کو ثابت مانا ہے، وہ کہتا ہے : ’’بے شک اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں دنیاوی آسمان پر نازل ہوتے ہیں اور عرفہ کی
Flag Counter