Maktaba Wahhabi

387 - 406
شام اہل عرفہ کی طرف اور پندرہ شعبان کی رات۔‘‘[1] محسن الکاشانی کہتا ہے: اول یہ کہ دعاء کے لیے اس کے مناسب شرف کے اوقات تلاش کئے جائیں ۔ مثلاً سال بھر میں عرفہ کا دن، مہینوں میں رمضان کا مہینہ۔ ہفتہ بھرمیں جمعہ کادن، اور عام اوقات میں سحر کے وقت آخری رات کی چند گھڑیاں : ﴿ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴾ [ الذاریات: ۱۸]’’اور سحری کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں ۔‘‘ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات، رات کے آخری تہائی حصہ میں دنیاوی آسمان پر تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں : کون ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں اس کی دعا کو قبول کروں ؟ اور مجھ سے مانگے، میں اسے عطاکروں ۔ اور مجھ سے مغفرت کا طلب گار ہو، میں اس کے گناہ معاف کردوں ۔‘‘[2] ایسے ہی ایک دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: رات کا کون ساحصہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: بقیہ رات کا آخری آدھا حصہ۔ رات کے آخری حصہ کے متعلق احادیث وار دہوئی ہیں ، مثلاً: عرش کا کانپنا، جنت عدن سے ہواؤں کا چلنااور جبار سجانہ تعالیٰ کا دنیاوی آسمان پر نازل ہونا ان کے علاوہ دیگر روایات بھی ہیں ۔‘‘[3] اور ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہررات دنیاوی آسمان پر نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی دعا قبول کروں ۔‘‘[4] بلکہ ان کے ہاں تو یہاں تک لکھا ہو اہے کہ اللہ تعالیٰ اونٹ پر سوار ہو کر نزول فرماتے ہیں : ’’ عبداللہ ابن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے سنا ، وہ کہہ رہے تھے: بے شک اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن زوال کے بعد ایک کشادہ کو ہان والے اونٹ پر بیٹھ کر زمین پر اترتے ہیں ۔‘‘[5] ابو عبداللہ سے روایت ہے کہ: ’’جب عرفہ کا دن ہوتا ہے تو رب تبارک وتعالیٰ عرفہ کے دن زمین پر اترتے ہیں ۔‘‘[6]
Flag Counter