Maktaba Wahhabi

118 - 281
اور کامیابی ہی کامیابی ہے، جنگ بدر میں یہ تین سو تیرہ تھے ، کفار ایک ہزار تھے، یہ نہتے تھے، وہ مسلح تھے، اس کے باوجود یہ کامیاب ہوئے، ستر کافر قتل ہوئے، ستر قید ہوئے اور زخم تو سب کو لگے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہاں فتح ہی فتح ہے ، چنانچہ ساتھ مل جاؤ، غنیمتیں بھی ملیں گی، فتوحات بھی ملیں گی، لیکن جب جنگ احد میں معاملہ برعکس دیکھا کہ آج صحابہ شہید ہوگئے اور جنگ احد کی بنیادیں صحابہ کے پاکیزہ خون سے سرخ ہوگئیں، خود امام الانبیاء زخمی ہو کر نڈھال ہو کر گر گئے، تو منافقین نے کہا کہ نہیں بھئی یہاں بھی مار پڑ سکتی ہے، وہ کٹ گئے، علیحدہ ہو گئے اور اس سے تمحیص حاصل ہوگئی، تمیز حاصل ہوگئی، ابوبکر صدیق جیسے، عمر بن خطاب جیسے، بلال حبشی جیسے سچے اور کھرے لوگ ساتھ رہ گئے اور عبداﷲ بن ابی ابن سلول جیسے جھوٹے اور منافق کٹ کے الگ ہوگئے، صفوں میں تمحیص آگئی اور تمیز آگئی اور یہ بھی ایک برکت ہے۔ ساتھی تھوڑے ہوں، سچے اور کھرے ہوں، وہ کامیابی کی نوید ہیں اور ساتھی لاکھوں ہو، نیتوں میں کھوٹ ہو اور عقیدے میں خلل ہو، زبانوں پر جھوٹ ہو، تو کثرت تعداد کا کوئی فائدہ نہیں۔ کثرت تعداد کا کوئی فائدہ نہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ إنما الناس کإبل مائۃ لا تکاد تجد منھم راحلۃ ‘‘[1]لوگوں کی کثرت کی مثال تو ان سو اونٹوں کی سی ہے، جن کو آپ خریدیں، پالیں پوسیں، کھلائیں اور پلائیں اور جب آپ کو سواری کی ضرورت ہو تو ان میں کوئی بھی سواری کے قابل نہ ہو، تو کیا فائدہ اس تعداد کا؟ تو آزمائشوں سے یہ بھی ایک مقصود ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمحیص چاہتا ہے، اسلام کی صفوں میں نکھار پیدا کرنا چاہتا ہے۔
Flag Counter