Maktaba Wahhabi

258 - 281
خطاب نہیں فرمایا، کیونکہ اس دور کے سفارتی آداب اسی قسم کے تھے کہ ماتحت حاکم کو بھیجا جائے، آگے پھر وہ خود پہنچاتا تھا، انہی سفارتی آداب کے پیش نظر آپ نے حاکم بصریٰ کو مکتوب گرامی بھیجا تھا، اس مکتوب کا مضمون یہی تھا جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ کفار کو خط کے شروع میں بسم اﷲ لکھنا: ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم۔‘‘مکتوب کے افتتاحیہ کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کو خط لکھا جائے تو بسم اﷲ لکھنی چاہیے، کیونکہ کسی نہ کسی رنگ میں اﷲ تعالیٰ کو سبھی مانتے ہیں، قرآن مجید میں حضرت سلیمان صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب بنام ملکہ سباء کا آغاز بھی ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم‘‘ سے ہوتا ہے، جسے سورۂ نمل میں بیان کیا گیا ہے۔ خط لکھنے والا پہلے اپنا نام لکھے: ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم‘‘ کے بعد ’’من محمد عبداللّٰه ورسولہ‘‘ لکھا ، اس سے معلوم ہوا کہ مرسل کا نام پہلے ہونا چاہیے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنا نام لکھا، اس میں اختلاف ہے کہ پہلے مرسل الیہ کا نام بھی لکھا جا سکتا ہے؟ لیکن سنت طریقہ تو یہی ہے کہ بھیجنے والے کا نام پہلے ہونا چاہیے، کہتے ہیں کہ ہرقل کے بعض حواریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسلوب مکتوب کو ناپسند کیا اور کہا کہ پہلے اپنا نام کیوں لکھا ہے؟ ہرقل نے جواب دیا کہ واقعی اگر وہ نبی ہے، تو پہلے اسے اپنا نام ہی لکھنا چاہیے۔ اﷲ کا بندہ اور رسول: اپنے اسم گرامی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲ کا بندہ اور رسول لکھا، اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ میں اﷲ رب کائنات کافر ستادہ بندہ ہوں، اس نے مجھے
Flag Counter