Maktaba Wahhabi

262 - 281
ابتداء میں سلام کرنے سے کیوں روکا؟ ’’لا تبدؤا الیھود والنصاریٰ بالسلام ‘‘ کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس کا محمل خاص موقعہ ہے، جس وقت آپ بنی قریظہ پر فوج لے جا رہے تھے، اس وقت چونکہ یہودیوں سے لڑائی شروع تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو ابتدائً سلام کرنے سے منع فرما دیا تھا، کیونکہ سلام کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کرتے، اس حدیث کا پس منظر یہ ہے، یہ نہیں کہ کسی جگہ بھی سلام نہیں کرنا چاہیے۔[1] کفار کو کیسے مخاطب کیا جائے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ سلام علی من اتبع الھدی ‘‘ جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہدایت پر ہوگا، اس پر سلام ہوگا، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے جو بحث کی ہے، وہ السلام علیکم کے متعلق ہے، یعنی السلام علیکم کہہ سکتا ہے، ’’ سلام من اتبع الھدیٰ ‘‘ میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں، اس طرح کا جملہ کہنے کو کوئی سلام نہیں کہتا، یہ تو اسی طرح کا جملہ ہے جیسے کہتے ہیں بڑے کو سلام ، صاحب کو سلام، صاحب سلامت، نیت مسلمانوں کو سلام کرنے کی ہوتی تھی، یہ تو ایک قسم کا توریہ ہوا۔ حضرت موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرعون سے خطاب: ’’ سلام علی من اتبع الھدی‘‘ تو حضرت موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا تھا، جب فرعون مصر کے پاس تشریف لے گئے تھے: { وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ ﴿٤٧﴾ إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ
Flag Counter