Maktaba Wahhabi

257 - 281
یہ ہر قل کا اپنا احساس و خیال تھا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مسیح صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری دنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نہیں، جب ہمیشہ کے لیے نہیں تو دوسرے لوگوں کے لیے نبی کی ضرورت تھی اور تکمیل دین و شریعت کی ضرورت باقی تھی۔ ہرقل کی تمنا: اس تبصرہ کے بعد ہر قل نے اپنے مافی الضمیر کا اظہار ان الفاظ سے کیا: ’’ لو أني أعلم أني أخلص إلیہ ‘‘ اگر مجھے یقین ہو کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا، تو میں ضرور آپ سے ملاقات کی یہ تکلیف گوارا کروں، یہ ہر قل نے اس بنا پر کہا تھا کہ وہ حالات دیکھ رہا تھا کہ وہ وہاں نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اگر میں وہاں جاؤں گا، تویہ میرے درباری اور ہم مذہب لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گے، اگر میں اس کے حضور حاضر ہوتا، تو اس کے پاؤں دھوتا، یعنی میں اس کی خدمت کرتا، یہ خدمت بھی کسی منصب اور عہدہ کے حصول کی نیت سے نہیں، بلکہ اس کے مقام و مرتبہ کے احترام کی خاطر کرتا۔ مکتوب نبوی: اس کے بعد ہر قل نے ’’دعا بکتاب رسول اللّٰه ‘‘ آپ کا گرامی نامہ منگوایا، جسے دِحیہَ کلبی کی وساطتِ سفارت سے عظیم بصریٰ تک پہنچایا گیا، دِحیہَ کلبی کی شکل و صورت حضور گرامی قدر سے ملتی جلتی تھی، جبریل امین بھی ان کی صورت میں وحیٔ الہٰی لے کر حاضر خدمت ہوا کرتے تھے، نہایت حسین و جمیل آدمی تھے، اس دور کا دستور تھا کہ سفارتی نمائندہ ایسے ہی لوگوں کو بنا کر بادشاہوں کے دربار میں بھیجتے تھے، جو شکل و صورت کے اعتبار سے وجیہ، پر رعب اور باوقار شخصیت کے مالک ہوتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بصریٰ کے حاکم کے پاس اپنے سفیر کو بھیجا تھا، براہ راست قیصر کو
Flag Counter