Maktaba Wahhabi

85 - 281
کسی نے دین اسلام کو قبول کر کے چھوڑا ہو، اس دعوت توحید کو مان کے ارتداد اختیار کیا ہو، اس کی کوئی مثال نہیں، بشرطیکہ اس کی بنیاد دین سے ناراضی ہو، ہاں کسی کے دل میں طمع اور لالچ ہو، دنیا یا دنیا کے مناصب اور وقار کی چاہت ہو، اس کی خواہش پوری نہ ہوئی ہو اور وہ مایوس ہو کر چلا جائے، یہ بات الگ ہے، لیکن دین کو قبول کر کے دین سے ناراض ہو کر کسی نے دین کو نہیں چھوڑا، جس نے اس دین کو قبول کیا، وہ آج تک قائم ہے، حتی کے ماریں برداشت کیں، وہ گرم کوئلوں اور انگاروں پر گھسیٹے گئے، ان کے سینوں پر بھاری سلیں رکھیں گئیں، ان کے گلوں میں رسیاں باندھ کر مکہ کے اوباشوں کے سپرد کر دیا گیا، جو ان کو گسیٹتے رہتے، ان کو مارتے رہتے، کھولتا ہوا پانی ڈالا گیا، لیکن اس دین سے کوئی مرتد نہیں ہوا۔ ہرقل کا تجزیہ: ہر قل نے اس کا جواب دیا: ’’ وکذلک الإیمان حین تخالط بشاشتہ القلوب ‘‘ ہاں یہی ایمان کی شان ہے، جب ایمان کی بشاشت، ایمان کا انشراح ، ایمان کا نور اور حلاوت دلوں میں بیٹھ جائے ، تو پھر کوئی ایمان کو چھوڑ نہیں سکتا، یہ ایمان کی شان اور ایمان کی حلاوت ہے اور واقعتا ہر قل کا یہ جواب ایک تاریخی جواب ہے۔ انشراحِ ایمان: یہ اس کا فہم و فراست ہے کہ سچی توحید اور سچے ایمان کی حلاوت اگر دل میں بیٹھ جائے، تو پھر بندہ ایمان کو چھوڑنا تو دور کی بات ہے، کوئی ایک عمل چھوڑنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا، آج در حقیقت یہ انشراح نہیں ہے اور نہ یہ حلاوت دلوں میں بیٹھی ہے، اس لئے ایمان سے ایک روایتی نوعیت کا تعلق ہے، صحیح منہج نہیں ، اوپر اوپر سے ایک رابطہ اور تعلق ہے، جو اﷲ تعالیٰ کو قطعاً قابل قبول نہیں، یہ انشراح کیسے آتا ہے؟
Flag Counter