Maktaba Wahhabi

276 - 281
ظاہر نہیں ہے، کیونکہ کلام تو صفت ہے، اب یہ بات کہ صفت عین ذات ہے یا الگ ہے؟ اس میں اختلاف ہے، معتزلہ کہتے ہیں عین ذات ہے، دوسرے کہتے ہیں قائم بالذات ہے، اس طرح باپ، بیٹا اور روح القدس میں بیٹا سے مراد مسیح نہیں، یہ محض عیسائیوں کی اپنی بنائی ہوئی بات ہے، جب تک انہیں اچھی طرح سمجھایا نہ جائے، اس وقت تک ان تعبیرات کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے۔ عیسائیوں کی بے تکی باتیں: { اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ} [آل عمران: 64] یہ کہ ہم صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں، آج کل عیسائی کہتے ہیں کہ لاہوت کا نام اﷲ رکھ دیتے ہیں، مسیح کو اﷲ تعالیٰ کا بیٹا کہہ دیتے ہیں، یہ لوگ مسیح کو بیٹا اس معنی سے نہیں کہتے کہ وہ خدا کی اقنوم ہے، بیٹا اقنوم، مسیح یہ دونوں مل کر ایک حقیقت بن گئی، اس کا نام یسوع ہے، گویا مسیح کی ایک انسانی روح ہے اور ایک اﷲ تعالیٰ کی اقنوم بیٹا، بیٹا اقنوم مسیح کے ساتھ مل کر متحد ہوگئی، اس طرح یہ ایک ہوگئی۔ اس پر مسلمان اعتراض کرتے ہیں کہ دو چیزیں مل کر ایک ہوجائیں، یہ ناممکن ہے، اگر دو چیزیں مل کر ایک ہوجائیں، تو ان دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہوگی کہ یا تو ایک دوسرے میں حال محال ہیں، دونوں قائم ہیں، اس صورت میں اتحاد کیسے ہوا؟ جب دونوں اپنی اپنی جگہ قائم ہیں، اس کا وجود اپنا، اس کا اپنا، یا دوسری صورت یہ ہو کہ ایک فنا ہوجائے، پھر بھی اتحاد نہ ہوا، کیونکہ ایک تو ختم ہوگئی اور اس کا وجود ہی باقی نہ رہا، اس لئے حلول بھی محال اﷲ تعالیٰ کی ذات کا اور اتحاد بھی محال، بہر حال یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ پادری عبدالحق نے ایک دفعہ تقریر کی، تقریر کا انداز بالکل اسی طرح تھا جس
Flag Counter