Maktaba Wahhabi

128 - 281
اور ہم نے اپنے آپ کو برادری کے اس بندھن سے آزاد کرایا، آباء و اجداد کی سوچ کو اپنے آپ سے دور کیا، تو حق نے ہمارے سینوں کو روشن کر دیا اور ہم نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ تاثیرِ قرآن: جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بھی یہی بات بیان کرتے ہیں کہ اس دعوت کو ہم نے توجہ سے سنا ہی نہیں، آباء و اجداد کے پیروکار تھے، حتی کہ جنگ بدر میں قیدی ہوگئے، مشکیں کسی ہوئی ہیں، اسی اثناء میں مغرب کا وقت ہوگیا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کو مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور آپ نے سورۂ طور پڑھی، کہتے ہیں ہماری مشکیں کسی ہوئیں اور ہم براہ راست اﷲ کے پیغمبر کا قرآن سن رہے تھے : ’’ ذلک أول إیمان وقر في قلبي ‘‘ یہ ہمارے دلوں میں ایمان کا پہلا جھونکا تھا اور ایمان کی بہار کی پہلی دستک تھی، ہم نے خود قرآن سنا اور پھر ہم نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔[1] معاشرتی ملامت کا خوف: میرے دوستو اور بھائیو! سچے دین کی پیروی میں برادریوں، قوموں اور آباء و اجداد کے بت سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، سچا دین لوگ اس لیے قبول نہیں کرتے کہ برادری کیا کہے گی؟ قوم کیا کہے گی؟ ابو طالب یہی کہتا کہتا مر گیا، اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعوت پیش کر رہے ہیں، وہ قبول نہیں کر رہا، یہاں تک اس کو کہہ دیا کہ تم میرے کان میں کلمہ پڑھ لو اور کوئی نہیں سن رہا، صرف میں سنوں گا اور جب قیامت کا دن ہوگا، میں اس کلمے کو حجت بنا کر تمہیں بخشوانے کی کوشش کروں گا، کہتا ہے کہ نہیں:
Flag Counter