شخص نے اس کو دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔اس عورت نے مدد کے لیے فریاد کی،لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچا،اور تب سردی کا موسم تھا،اس نے[مجبوراً]دروازہ کھول دیا،اور چکی کا پاٹ مار کر اس کا کام تمام کر دیا۔
انہوں[ضحاک رضی اللہ عنہ]نے[تحقیق کی خاطر]ایک شخص کو اس[عورت]کے ساتھ روانہ کیا،تو وہاں چوروں میں سے ایک چور[مرا پڑا]تھا۔اور اس کے ساتھ[چرایا ہوا]سامان تھا۔
انہوں نے اس کے خون کو باطل قرار دیا[یعنی عورت سے قصاص نہ لیا گیا]۔‘‘
علاوہ ازیں متعدد علمائے امت نے بھی اس بات کو صراحت سے بیان کیا ہے۔مثال کے طور پر امام احمد رحمہ اللہ نے ایسی عورت کے متعلق فرمایا:
((إِذَا عَلِمَتْ أَنَّہُ لاَ یُرِیْدُ إِلاَّ نَفْسَہَا،فَقَتَلَتْہُ لِتَدْفَعَ عَنْ نَفْسِہَا فَلاَ شَيْئَ عَلَیْہَا۔))[1]
’’جب عورت کو معلوم ہو جائے کہ وہ اس سے برائی کا ارادہ رکھتا ہے،اور وہ اپنی عزت کوبچانے کی غرض سے اس[مرد]کو قتل کر دے،تو اس پر کچھ[گناہ یا قصاص]بھی نہیں۔‘‘
امام بغوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
((لَوْ قَصَدَ رَجُلٌ الْفُجُوْرَ بِامْرَأَۃٍ،فَدَفَعَتْہُ عَنْ نَفْسِہَا،فَقَتَلَتْہُ لاَ شَيْئَ عَلَیْہَا۔))[2]
’’اگر کوئی مرد کسی عورت سے برائی کا قصد کرے،اور وہ[عورت]اس کو دھکا دے،اور قتل کر دے،تو اس پر کچھ[گناہ یا قصاص]نہیں۔‘‘
صرف یہی بات نہیں،بلکہ عزت وناموس کی حفاظت کی خاطر برائی کا ارادہ کرنے
|