Maktaba Wahhabi

283 - 288
وہ کرنا پسند نہیں کرتے،اور ایسی باتوں سے منع کرتا ہے جن کے وہ شوقین اور دل دادہ ہوتے ہیں،اور لوگوں کو ان کی خواہشات کے برعکس چلانے کی کوشش کرنے والے کم ہی لوگوں کے شرور وفتن سے محفوظ رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں احتساب میں حقیقی معرکہ محتسب اور اوباش اور بدقماش قسم کے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔بھلے لوگ بھی غلطی کرتے ہیں،لیکن ان کے لئے اشارہ یا معمولی تنبیہ ہی کافی ہوتی ہے۔لیکن بد طینت،آوارہ اور برے لوگوں کو سیدھی راہ پر لانے کے لئے محتسب کو شدید محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے،اور اس غرض کے لئے اس کا بارعب ہونا ضروری ہوتا ہے۔اسی لئے علمائے حسبہ نے محتسب کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ رعب اور دبدبہ والا ہو۔مثال کے طور پر امام ماوردیرحمہ اللہ نے اس بارے میں تحریر کیا ہے: ((وَمِنْ شُرُوْطِ وَالِي الْحِسْبَۃِ أَنْ یَکُوْنَ حُرًّا،عَدْلاً،ذَا رَأيٍ وَصَرَامَۃٍ وَخَشُوْنَۃٍ فِي الدِّیْنِ،وَعِلْمٍ بِالْمُنْکَرَاتٍ الظَّاہِرَۃِ۔))[1] ’’والی حسبہ کی شرائط میں سے ہے کہ وہ آزاد،عادل،صاحب الرائے،اور دین میں قوت اور سختی والا ہو،اور منکرات ظاہرہ سے باخبر ہو۔‘‘ کیا یہ عقل مندی کی بات ہے کہ صنف نازک سے ایسی قوت وسختی کے اظہار کا مطالبہ یا توقع کی جائے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ مسلمان خاتون کو اوچھے،اوباش،اور بدقماش لوگوں سے سارا دن جھگڑنے،تو تکار کرنے،بلکہ بسا اوقات ہاتھا پائی کے لئے بازاروں میں متعین کیا جائے؟ عرش والے رب کی قسم ! اس بات کی اجازت نہ شریعت اسلامیہ دیتی ہے،اور نہ ہی عقل وانصاف اس کی تایید کرتے ہیں۔
Flag Counter