Maktaba Wahhabi

124 - 630
امام حاکم رحمہ اللہ نے سفیان بن حسین عن الزہری ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے، پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہری) ذکر کیا، اس مرفوع حدیث میں جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حدیث سے دور کرنے کی کوشش کی، المستدرک (۱/ ۳۹۲۔ ۳۹۳) مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس مرفوع حدیث کو اس مرسل روایت سے تقویت دینے کے حق میں نہیں، کیونکہ سفیان بن حسین، امام زہری سے بیان کرنے میں متکلم فیہ ہے، بنا بریں اس نے یہ روایت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بیان کی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قلت: بل ھو علتہ‘‘ تغلیق التعلیق لابن حجر (۳/ ۱۷) کہ ابن المبارک کا اس حدیث کو زہری سے مرسل بیان کرنا سفیان کی غلطی دلیل ہے، لہٰذا یہ روایت مرسل ہی راجح ہے اور وہ مرفوع کو تقویت نہیں دیتی، کیونکہ اس کا مرفوع بیان کرنا غلط ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ امام حاکم رحمہ اللہ ایک حدیث کو متأخرین کی اصطلاح کے مطابق حسن لغیرہ قرار دے رہے ہیں، اسی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مرسل ہونے کی بنا پر ضعیف کہہ رہے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک مرفوع بیان کرنا غلط ہے، جس کی دلیل مرسل روایت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محدثین کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینے کے لیے قرائن کو پیشِ نظر رکھتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی تغلیق التعلیق میں قرائن ذکر کیے ہیں۔ ضعیف+ ضعیف کو مطلق طور پر حسن لغیرہ قرار دینا محدثین کا منہج نہیں ہے۔ بسا اوقات کوئی محدث کسی حدیث کو تقویت دینے میں وہم کا شکار ہوجاتا ہے جو استثنائی صورت ہے، اس سے حسن لغیرہ کے حجت ہونے میں قطعی طور پر زد نہیں
Flag Counter