Maktaba Wahhabi

292 - 630
یہ دلیل اعتراض نمبر پانچ میں وارد ہے۔ اس سے استدلال کیا گیا کہ ’’الغالب علیہ التدلیس‘‘ کا قول منسوخ ہے۔ اس پر گفتگو آئندہ آرہی ہے۔ إن شاء اللّٰه۔ سرِ دست عرض ہے کہ اس مفہومِ مخالف کو بیان کرنے میں راقم منفرد نہیں، بلکہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں: وظاھر کلامہ قبول عنعنتھم إذا کان التدلیس نادراً‘‘ ’’ان (ابن مدینی رحمہ اللہ ) کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدلسین کا عنعنہ قبول کیا جائے گا جب تدلیس نادر ہو۔‘‘ (فتح المغیث: ۱/ ۲۱۶) درج ذیل علما نے بھی اسی قول سے یہی مفہومِ مخالف بیان کیا اور اسی کو ترجیح دی ہے: ۲۔ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ۔ (توضیح الکلام: ۳۱۴) ۳۔ سید محب اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ (مقالاتِ راشدیہ: ۳۱۴) ۴۔ دکتور اکرام اللہ امداد الحق۔(الإمام علی بن المدینی و منھجہ في نقد الرجال: ۶۴۲) ۵۔ شیخ عدنان علی الخضر۔ (الموازنۃ بین منہج الحنفیۃ و منہج المحدثین في قبول الأحادیث وردّھا) ۶۔ شیخ ابراہیم بن عبداللہ اللاحم۔ (الاتصال والانقطاع: ۳۲۰) ۷۔ دکتور علی بن عبداللہ الصیاح۔(الموسوعۃ العلمیۃ الشاملۃ عن الإمام یعقوب بن شیبۃ: ۱/ ۲۰۰) ۸۔ دکتور خالد بن منصور الدریس۔ (الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ: ۱/ ۴۷۵) ۹۔ شیخ عبداللہ بن یوسف الجدیع (تحریر علوم الحدیث: ۲/ ۹۷۴)
Flag Counter