Maktaba Wahhabi

294 - 630
گویا دو اسباب کی بنا پر ابن القطان رحمہ اللہ مرجعِ خلائق تھے۔ 1. سفیان ثوری کی احادیث کے سب سے بڑے حافظ تھے۔2. ان کی مدلس اور غیر مدلس روایات سے باخبر تھے۔ اس میں اس دعویٰ کی دلیل نہیں کہ مدلس کا ہر عنعنہ مسترد ہے۔ البتہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یحییٰ قطان کی سفیان ثوری سے سبھی روایات۔ باستثناے دو روایات۔ سماع پر محمول کی جائیں گی خواہ ثوری انہیں معنعن بیان کریں۔ ثالثاً: امام ابن القطان رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے سفیان (ثوری) سے صرف وہی کچھ لکھا جس میں وہ حدثنی یا حدثنا کہتے تھے۔ سواے دوحدیثوں کے۔‘‘ (العلل للإمام أحمد: .4۱.4/ .4۲۰۷.4) امام ثوری حدیث کے جلیل القدر امام ہیں۔ ان کی مرویات سے ذخیرئہ حدیث معمور ہے۔ یقینا ابن القطان رحمہ اللہ کے پاس بھی اس کا وافر حصہ موجود تھا۔ اور انھوں نے ثوری سے جتنی روایات رقم کیں وہ حدثنی یا حدثنا کے صیغے کے ساتھ تھیں۔ ماسواے دو روایات کے۔ جنھیں ابن القطان رحمہ اللہ نے بیان کردیا کہ یہ تدلیس شدہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ثوری بھی ابن القطان رحمہ اللہ کے ہاں قلیل التدلیس تھے۔ جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انھیں ’’ما أقل تدلیسہ‘‘ ’’ان کی تدلیس کتنی کم ہے؟‘‘ (الکفایۃ) قرار دیا ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ سفیان ثوری نے ان دونوں روایات کے علاوہ دیگر مرویات میں بھی تدلیس کی ہے۔ جس طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی معروف حدیث ہے: ’’کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھلاؤں؟ انھوں نے نماز کی ادائیگی کی۔ اور رفعِ یدین صرف پہلی مرتبہ (تکبیرِ تحریمہ
Flag Counter