Maktaba Wahhabi

423 - 630
3۔ امیرالمؤمنین امام بخاری رحمہ اللہ نے اگرچہ اپنے اجتہاد کے مطابق صحیح مسلم کی حدیثِ مذکور ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ پر کلام کیا ہے، جس میں وہ مجتہد مأجور ہیں۔‘‘(الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۴۸، ص: ۲۸) امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلا قول بظاہر دوسرے قول کا مؤید ہے، جبکہ ان کا تیسرا قول پہلے ان دونوں اقوال کے بالکل متضاد معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ تینوں اقوال اپنے محل پر درست ہیں۔ ان کے پہلے قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ موصوف کے ہاں ہر زیادۃ الثقہ مقبول ہوتی ہے، جیسا کہ محترم زبیر صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے قول سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کسی حدیث کے موصول اور مرسل ہونے کی صورت میں مطلق طور پر موصول کو مقدم کرتے ہیں۔ یعنی ثقہ کی زیادت قبول کرتے ہیں۔ جیسا کہ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے کلام سے مترشح ہوتا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’وھذا القول ھو الصحیح عندنا‘‘ (الکفایۃ: ۲/ ۴۹۹، رقم: ۱۲۶۹) ’’یہی قول ہمارے ہاں صحیح ہے۔‘‘ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وما صححہ ھو الصحیح في الفقہ وأصولہ‘‘ ’’خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے جس قول کو صحیح کہا ہے وہ فقہ اور اصولِ فقہ میں صحیح ہے۔‘‘ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح، ص: ۶۵) خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی تردید حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کی طرح حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی کی ہے اور یہ صراحت کی ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے حدیث کو موصول اور مرسل بیان کرنے میں جو مذاہب ذکر کیے ہیں وہ متقدمین
Flag Counter