Maktaba Wahhabi

429 - 630
دوسرے مقام پر ’’لا نکاح إلا بولي‘‘ کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے موصول حدیث کو مرسل حدیث پر اس وجہ سے ترجیح نہیں دی کہ موصول بیان کرنے والا ایسا اضافہ کرتا ہے جو مرسل بیان کرنے والے کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ قرائن کے تناظر میں موصول کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: ۲/ ۶۰۷) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے علاوہ یہی بات حافظ بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح (ص: ۱۸۱) اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ شرح علل الترمذي (۲/ ۶۳۸) نے فرمائی ہے۔ ان تین ائمہ کی تصریح کے بعد اس دعویٰ کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسرائیل بن یونس کی زیادت کو قبول کیا ہے، لہٰذا وہ ہر زیادۃ الثقہ بدونِ منافات کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہم نے اسرائیل کی زیادت کے تناظر میں فتح الباری (۹/ ۱۸۴) سے حافظ ابن حجر کا مذکورہ بالا قول ذکر کیا تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس زیادت کو قرائن کی بنا پر قبول کیا ہے۔ (الاعتصام، ج: ۶۰، ش: ۳۴، ص: ۱۰) مگر شیخ زبیر صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قول کا کوئی جواب نہ دینے میں عافیت سمجھی۔ چلیے، خیر کوئی بات نہیں، مگر ہوا یوں کہ جس غلط فہمی کا ازالہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرما یا۔ محترم زبیر صاحب نے اسی قول سے دوبارہ استدلال کر لیا!
Flag Counter