Maktaba Wahhabi

133 - 242
’’اس امر میں کوئی حرج نہیں ہے کہ میت پر صرف نیت (یعنی اگرچہ میت غائب ہو) ہی سے نماز جنازہ پڑھ لی جائے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے جنازہ پر اسی طرح کیا تھا۔‘‘ امام نووی علامہ قسطلانی اور دوسرے شارحین رحمہم اللہ حدیث کے علاوہ خود علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں : ((فِیْہِ حُجَّۃٌ لِمَنْ جَوَّزَ الصَّلٰوۃَ عَلَی الْغَائِبِ وَمِنْھُمُ الشَّافِعِیُّ وَاَحْمَدُ))[1] یعنی نجاشی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس شخص کے لیے حجت ہے جو میت غائب پر نماز جنازہ کوجائز قرار دیتا ہے۔ ان میں امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی ہیں ۔ شیخ محمد محمد خطاب السبکی متوفی ۱۳۵۲ھ لکھتے ہیں : ((وَفِی الْحَدِیْثِ دَلَالَۃٌ عَلٰی جَوَازِ الصَّلوٰۃِ عَلَی الْمَیِّتِ الْغَائِبِ وَبِہٖ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَاَحْمَدُ وَجَمْہُوْرُ السَّلْفِ قَالُوْا سَوَائٌ صُلِّیَ عَلَیْہِ فِی الْبَلَدِ الَتِیْ مَاتَ فِیْہَا اَمْ لَا وَسَوَائٌ کَانَتِ الْبَلَدُ الَّتِیْ مَاتَ فِیْہَا جِھَّۃَ الْقِبْلَۃِ اَمْ لَا))[2] یعنی یہ حدیث نجاشی رضی اللہ عنہ کی میت غائب پر نمازجنازہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ جمہور سلف اسی کے قائل ہیں اور انہوں نے فرمایا ہے کہ میت غائب پر اس شہر میں جہاں وہ فوت ہوا تھا نماز جنازہ پڑھی گئی ہو یا نہ پڑھی گئی ہو وہ شہر جہت قبلہ میں ہو یا نہ ہو ہر صورت میں نماز جنازہ غائبانہ جائز ہے۔ شیخ الحدیث محقق علامہ عبیداللہ رحمانی رقمطراز ہیں : ((وَفِیْ ہٰذِہِ الْقِصَّۃِ دَلِیْلٌ عَلٰی مَشْرُوْعِیَّۃِ الصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیِّتِ
Flag Counter