اگر روح بد اور شقی ہو گی تو اس کی خواہش کے باوجود اسے واپس آنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ، وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْالَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّ اَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّئُ وْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ وَ مَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّار،﴾ (البقرۃ: ۱۶۶۔۱۶۷)
’’جب مقتدا اپنے پیرؤوں سے الگ ہو جائیں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ کر رہ جائیں گے اور پیرو کہنے لگیں گے کاش! ہم کو پھر ایک دفعہ (واپس جانا) مل جاتا تو ہم بھی ان سے الگ ہو جائیں جیسے یہ ہم سے الگ ہو گئے، بس اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو انہیں (خالی) ارمان (کر کے) دکھائے گا اور دوزخ سے کبھی نہ نکل پائیں گے۔‘‘
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ حَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنَہَآ اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ،﴾ (الانبیاء: ۹۵)
’’جس بستی کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اس کے باشندے لوٹ کر نہیں آ سکتے۔‘‘
یعنی جن بستیوں کو تباہ کر دیا گیا ہے‘‘ ان کے باشندے پھر دنیا میں نہیں آ سکتے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہٗ اَعْمٰی وَ اَصَمُّ مَعَہٗ مِرْزَبَۃٌ مِنْ حَدِیْدٍ لَوْ ضُرِبَ بِہَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا یَضْرِبُہٗ ضَرْبَۃً یَسْمَعُہَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیْرُ تُرَابًا ثُمَّ یُعَادُ فِیْہِ الرُّوْحُ))[1]
’’جب کافر اور مجرم حساب میں فیل ہو جاتا ہے تو قبر اس کی پسلیاں توڑ ڈالتی ہے پھر اس پر ایک اندھا بہرا داروغہ مقرر کیا جاتا ہے اس کے پاس اسے پیٹنے کے لیے
|