قرآن کریم کی صورت میں نازل ہورھے تھے جو کہ قیامت تک کے لئے ہدایت و رشد کا راستہ قرار پائے، ایسے میں ایک دفعہ ایک انصار قبیلہ کی خاتون صحابیہ رضی اللہ عنھا پیارے پیغمبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور سوال کیا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے گھر میں موجود ہوتی ہوں اور میں اس حالت میں ہوتی ہوں کے مجھے یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ مجھے کوئی دیکھے نا والد اور نا ہی کوئی بچہ مگر ایسے میں کبھی میرے گھر کا کوئی فرد آجا تا ہے کبھی والد آجاتےہیں اور میں اسی حالت میں ہوتی ہوں تو میں کیا کروں؟[1]اس سے پہلے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرماتے کہ اللہ تعالی نے قرآنی آیت کی صورت میں اس سوال کا جواب عنایت فرمادیا اور اس امر کی اہمیت و افادیت کو عظیم قرار دیا ،جبریل امین نے یہ آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جس میں سوال کا جواب اور مسئلہ کا حل دونوں موجود تھے چنانچہ فرمایا : ﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ ﴾ [النور: 27، 28] ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔ مندرجہ بالا آیات میں اگر ہم غور و تدبر کریں تو اس میں اجازت لینے کے لئے عام حکم دیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ہے ۔ اور وہ تقاضہ کرتی ہیں کسی مقام یا گھر میں بغیر اجازت داخل نہیں ہونا چاہئے چاہے اس گھر میں کوئی موجود ہو یا نہ ہو اوربلکہ اجازت لے کر داخل ہونا چاہئے البتہ وہ مقامات جو کہ ذاتی ہوں یا عوامی مقامات ہوں جیسے ہوٹل تجارتی محلات وغیرہ ان میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا لازمی نہیں بلکہ مستحب عمل ہے ۔ جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں ذکر کیا کہ استئذان کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک گھر کے اندر سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری قسم کا تعلق گھر کے باھر سے ہے جو کہ گھر والوں سے طلب کی جاتی ہے یا |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |