Maktaba Wahhabi

308 - 453
سماج اور انسانی معاشرے میں نہ تو کسی فرد کو مکمل اظہار کی آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ شُترِ بے مہار بن جائے اور آزادی اظہار کے پردے میں دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنے، حرمات ومقدّسات کی پامالی کا مرتکب ٹہرے اور لوگوں کی نجی زندگی کے بارہ میں لب کشائی کرے ۔ اور نہ ہی انسانوں کی فکر و نظر کی آزادی کوبے جاقانون و اصول کا سہارا لے کر اس طرح قید و بند کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے فطری اور پیدائشی حق کے لیے بھی آواز بلند نہ کرسکیں۔ اسلام اور آزائ اظہار رائے : ہر مسلمان کلمہ شہادت ’’ أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم‘‘ پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا معترف بنتاہے ۔ عبودیت کا مطلب ہوتاہے بندگی ، غلامی گویا کہ بندہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ اے اللہ میں اپنی تمام زندگی تیری غلامی میں بسر کروں گا ۔ اب غلامانہ زندگی کیسی ہوتی ہے؟ ہر ذی شعور فرد اس سے بخوبی واقف ہے ۔ زمانہ حاضر میں جہاں انسان نے مادی زندگی میں ترقی کی ہے اس ترقی کو بنیاد بناکر حضرت یہ سمجھ بیٹھا ہےکہ شاید اخلاقی ، تہذیبی ، مذہبی ، ثقافتی اقدار بھی بدل چکے ہیں اس لئے ان میں بھی تبدیلی ضروری ہے۔ انہی اقدار میں ایک آزادی اظہار رائے بھی ہے۔ میڈیا کی ترقی اور عروج کے بعد ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے اظہار رائے کا حق حاصل ہے ۔ وہ اپنی رائے میں آزاد ہے ،جو چاہے کہے !جیسا چاہے عقیدہ رکھے ! لوگوں کو اس کا قائل کرے اور اپنی سوچ وفکر کا ہمنوا بنائے ۔ نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے مغرب نے حریت پر قانونی ضابطے لاگو کئے مگر دینی اور اخلاقی ضابطوں سے لوگوں کو آزاد کردیا۔ اسی بنیاد پر مغرب میں دین کو دنیا سے الگ کردیا گیا اور’’أعطوا مالقیصر لقیصر وما للّٰه للّٰه‘‘ کا نعرہ لگایا ۔ مگر اسلام میں حریت اور آزادی کا مفہوم لوگوں کو مخلوقاتِ کائنات کی عبودیت سے نکال کر اللہ رب العزت کی عبودیت میں لگانا ہے ۔ اس لئے واقعہ قادسیہ کے موقع پر جب رستم نے مغیرہ بن شعبہ سے پوچھا کہ آپ لوگ ہمارے علاقوں میں کس لئے آئے ہیں تو آپ فرمانے لگے’’لإخراج
Flag Counter