سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایاجائے : مثلاً یوں کہے کہ’’ میں فلاں بول رہا ہوں‘‘الا یہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان میں آجاتی ہو ،ایسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہیں کہ’’ آپ نے مجھے پہچانا ؟‘‘ اِس سے آدمی حرج میں پڑجاتا ہے پھراِس انداز میں پوچھنابھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے میں آخر حرج کیا ہے؟ ۔ صحیحین کی روایت ہے سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : "أتیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنہ کرھہا "[1] ’’میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے والد نے لیا تھا اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمایا : کون؟ میں نے کہا: ’’ أنا ‘‘ یعنی میں ہو ں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو یہ کہہ رہے تھے ’’میں، میں‘‘ گویاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے جواب پر ناپسندیدگی کااظہار فرمایا ‘‘۔ کیونکہ ’’میں ‘‘ کہنے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔‘‘ آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک دیں گے اور آپ اُن سے پوچھیں کہ’’کون‘‘ ؟ تو کہیں گے ’’میں‘‘بھئی ! ’’میں‘‘ کہنے سے کیا سمجھ میں آئے گا ، لہٰذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ مشکل کا شکار نہ ہو اور فوراً پہچان لے۔ جسے فون کر رہے ہوں اس کے حالات کا خیال رکھیں: ممکن ہے جس کو آپ نے فون کیا ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام میں مشغول ہویا ایسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے لیے مناسب نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر جواب نہ ملا ، یا جواب میں جلد بازی پائی گئی یا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے بارہ میں حسن ظن رکھے ۔ اُسی طرح |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |